کراچی(روشن پاکستان نیوز) سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) نے ایک اسٹیک ہولڈر ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جس کا مقصد پاکستانی نوجوانوں کو تمباکو اور نئی ابھرتی ہوئی نکوٹین مصنوعات سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرات پر بات چیت کرنا تھا۔
مقررین نے نشاندہی کی کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں ای سگریٹس، ویپس، نکوٹین پاؤچز اور ہیٹڈ ٹوبیکو ڈیوائسز جیسی نئی نکوٹین مصنوعات کی دستیابی، مارکیٹنگ اور استعمال میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ ان مصنوعات کو “محفوظ متبادل” بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور انہیں حکمتِ عملی کے تحت نوجوانوں کو نشانہ بنا کر فروغ دیا جا رہا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سید شارق جمال، رکن سندھ اسمبلی نے حکومت کی اس ذمہ داری کو دہرایا کہ بچوں اور نوجوانوں کو نقصان دہ اور لت لگانے والے مادّوں سے محفوظ رکھنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے نئی نکوٹین مصنوعات کو “خاموش قاتل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مصنوعات بغیر کسی نگرانی کے جارحانہ انداز میں مارکیٹ میں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی کو صنعت کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملیوں کے مطابق فوری طور پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے تمام نکوٹین اور تمباکو مصنوعات کی پیداوار، تقسیم، مارکیٹنگ اور فروخت سے متعلق جامع قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا اور تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کی کہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے ایک تمباکو سے پاک مستقبل کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں۔
مزید برآں، انہوں نے بتایا کہ سندھ اسمبلی تمام ضروری قانون سازی بشمول نئی نکوٹین مصنوعات کی ریگولیشن، قانونی خلا کو بند کرنے، اور کم عمر افراد کو رسائی کی خلاف ورزیوں پر سخت سزاؤں پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
محکمہ صحت سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسپیشل سیکریٹری ہیلتھ مسٹر جمشید عالم میمن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تمباکو نوشی پاکستان کا ایک بڑا عوامی صحت کا مسئلہ ہے، اور ہر سال تقریباً 166,000 افراد تمباکو سے متعلق بیماریوں کے باعث جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان خاص طور پر خطرے میں ہیں کیونکہ صنعت کی جانب سے گمراہ کن مارکیٹنگ اور ویپس و نکوٹین پاؤچز جیسے مصنوعات کے بارے میں غلط تصورات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے نوجوانوں کے تحفظ کے لیے مضبوط قوانین، مؤثر نفاذ، ٹیکسیشن اقدامات، عوامی آگاہی مہمات، اور گمراہ کن تشہیر کے خلاف سخت نگرانی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے صحت کے محکمے، تعلیمی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان قریبی تعاون کی اپیل کی تاکہ نوعمروں میں نکوٹین کی بڑھتی ہوئی لت پر قابو پایا جا سکے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال، چیئرپرسن شعبہ نفسیات، جامعہ کراچی نے اس عام غلط فہمی کو مسترد کیا کہ تمباکو ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کو کم کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایک نقصان دہ اور غلط عقیدہ ہے۔ حقیقت میں نکوٹین وقت کے ساتھ موڈ کو خراب کرتی ہے، دماغی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے اور شدید نفسیاتی انحصار پیدا کرتی ہے۔
سکون دینے کے بجائے تمباکو اور نکوٹین مصنوعات جذباتی مسائل کو مزید بڑھاتی ہیں اور ڈپریشن، اضطراب، ذہنی دباؤ اور توجہ کی کمی جیسے طویل المدت مسائل کے خطرے میں اضافہ کرتی ہیں، جن میں ADHD بھی شامل ہے۔
اسپارک کے پروگرام مینیجر ڈاکٹر خلیل احمد ڈوگر نے پاکستان میں نئی تمباکو اور نکوٹین مصنوعات کے تیزی سے پھیلاؤ کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے کہا کہ مکمل طور پر ریگولیشن نہ ہونے کے باعث تمباکو کی صنعت نئی مصنوعات بغیر کسی انکشاف، تعمیل چیک یا مناسب صحت کی وارننگ کے مارکیٹ میں متعارف کرا رہی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ نوجوان ایسی مصنوعات کے سامنے آرہے ہیں جن کے نقصانات کو جان بوجھ کر چھپایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوری طور پر ایک مضبوط ریگولیٹری فریم ورک تشکیل دیا جائے، جس میں معیاری پیکجنگ، ٹیکسیشن، ڈسپلے بین، اجزاء کی تفصیل، لائسنسنگ قوانین، اور نوجوانوں کی رسائی اور آن لائن فروخت پر پابندی جیسے اقدامات شامل ہوں۔
مکالمے میں سندھ حکومت، پالیسی سازوں، عوامی صحت کے ماہرین، قانونی ماہرین، صحافیوں، تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور نوجوانوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔











