کراچی(روشن پاکستان نیوز) ذیابیطس پہلے صرف عمر رسیدہ افراد کی بیماری سمجھی جاتی تھی مگر آج ٹین ایجر بھی اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ذیابیطس جس کو عرف عام میں شوگر کی بیماری کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے، جس پر اگر ابتدا میں توجہ نہ دی جائے تو یہ انسان کے گردوں، جگر کی خرابی، دل کے امراض کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
ذیابیطس کو پہلے عمر رسیدہ افراد کی بیماری سمجھا جاتا ہے، مگر آج ٹین ایج سے لے کر 30 سال کی عمرتک کے نوجوان بھی اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے اس کی وجہ معاشی دباو اور غیر صحت مند طرز زندگی کو بتایا ہے۔
کراچی میں ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں ماہرین ذیابیطس نے بتایا کہ معاشی دباو کی وجہ سے دو، دو نوکریاں، غیر صحت مند غذا، جسمانی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے 20 سے 30 سال کی عمر تک کے نوجوان ذیابیطس کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کا انہیں اس وقت تک پتہ نہیں چلتا جب تک کہ وہ دل کی شریانیں بند ہونے اور ہائی بلڈ پریشر جیسی پیچیدگیوں کے ابعث اسپتال نہ پہنچ جائیں۔
مزید پڑھیں: ہیپاٹائٹس ڈی: عالمی ادارہ صحت سے ’کینسر‘ کا ٹائٹل پانے والی یہ نئی بیماری کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا تھا کہ جب تک مرض کی تشخیص ہوتی ہے، اُس وقت تک خون کی نالیوں، گردوں اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔
پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے سابق صدر ڈاکٹر ابرار احمد نے کہا کہ ملک میں ہر چوتھا شخص ذیابطیس میں مبتلا ہے اور اگر طرزِ زندگی میں فوری تبدیلی نہ لائی گئی تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزن گھٹانے کے انجیکشنز نے لوگوں کی توجہ ذیابطیس کے اصل مسئلہ اور باقاعدہ شوگر مانیٹرنگ سے ہٹا دی ہے۔
ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سید جمشید احمد نے بتایا کہ ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ افراد باقاعدہ طور پر ذیابطیس کے مریض کے طور پر رجسٹرڈ ہیں جبکہ اندازوں کے مطابق تقریباً اتنی ہی تعداد لاعلم مریضوں کی ہے۔
فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 2 لاکھ 30 ہزار افراد ذیابطیس اور اس کی پیچیدگیوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ماہرین نے مطالبہ کیا کہ ذیابطیس کی آگہی کو قومی میڈیا، تعلیمی اداروں، موبائل نیٹ ورکس اور اوٹ آف ہوم میڈیا کے ذریعے مستقل بنیادوں پر مہم کی شکل دی جائے، ورنہ یہ خاموش بیماری پاکستان کی نوجوان ورک فورس کو مفلوج کر دے گی۔











