اسلام آباد (کرائم رپورٹر) سوشل میڈیا پر ہنی ٹریپ کے ذریعے جھوٹے بلاسفیمی کیسز میں پھنسائے گئے بچوں کے والدین اور ان کے وکلاء نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سنگین سازش کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک آزاد، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں وکلاء عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ، رانا عبدالحمید ایڈووکیٹ، ایمان مزاری ایڈووکیٹ، رضوان ایڈووکیٹ اور متاثرہ بچوں کے والدین نے شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو درخواست اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن صرف اس لیے دائر کی ہے تاکہ سپیشل برانچ کی رپورٹ کی بنیاد پر ایک غیر جانب دار تحقیق کی جا سکے۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ اقدام ہرگز توہین مذہب کے قانون میں ترمیم یا مخالفت کے لیے نہیں، بلکہ اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے بچے مکمل طور پر مسلمان ہیں اور عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر غیر متزلزل ایمان رکھتے ہیں، تاہم ایک مخصوص گروہ مالی و ذاتی مفادات کے لیے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ اس گروہ نے سوشل میڈیا پر ہنی ٹریپ کے ذریعے معصوم نوجوانوں کو پھنسا کر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے۔
پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ دنیا بھر میں دو ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں، لیکن یہ مبینہ مواد صرف ان ہی 35 افراد کو موصول ہوتا ہے جن کے خلاف سپیشل برانچ کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ ان افراد کا کبھی پتہ راولپنڈی، تو کبھی اسلام آباد ظاہر کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان کے 2021 کے بعد کے اثاثے اور ذرائع آمدن میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی چھان بین ضروری ہے۔
متاثرہ خاندانوں نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ سوشل میڈیا پر نہ صرف انہیں بلکہ عدالت عالیہ کے معزز ججز کو بھی تنقید اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لائیو اسٹریمنگ کے دوران ججز پر دباؤ ڈالنے کے مناظر اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح انصاف کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ لوگ واقعی بے گناہ ہیں جن کے نام تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہیں تو پھر انہیں تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ اصل حقائق سامنے آئیں۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر متاثرہ والدین اور وکلاء نے حکومت، ریاستی اداروں اور خصوصاً علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں، کمیشن کے قیام کی حمایت کریں، اور ان عناصر کی پشت پناہی بند کریں جو دین کے نام پر فتنہ انگیزی اور دین فروشی جیسے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ صرف موجودہ متاثرین کی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی حفاظت کا بھی سوال ہے، اور اس سازش کا فوری سدباب وقت کی اہم ضرورت ہے۔