اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) وفاقی دارالحکومت کی مثالی سمجھی جانے والی پولیس ایک بار پھر سنگین الزامات کی زد میں آگئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایک مشتبہ شخص کی غیر قانونی حراست کے دوران مبینہ تشدد سے ہلاکت کے بعد پولیس افسران پر غیر انسانی سلوک کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، ترنول پولیس نے میانوالی سے تعلق رکھنے والے اور بنوں کے رہائشی ایک مطلوب ملزم کو اعلیٰ افسران کی زبانی ہدایات پر گرفتار کیا۔ ملزم کو کئی روز تک عدالت میں پیش کیے بغیر حراست میں رکھا گیا، اس دوران اس پر جسمانی و ذہنی تشدد کیا گیا تاکہ دیگر جرائم کا اعتراف کرایا جا سکے۔ مبینہ طور پر اسی تشدد کے نتیجے میں ملزم کی جان چلی گئی۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن عثمان طارق بٹ واقعے میں براہ راست ملوث رہے اور گرفتاری سے لے کر موت تک تحقیقاتی ٹیم کو ہدایات جاری کرتے رہے۔ واقعے کے بعد اے ایس آئی رانا سلیم، کانسٹیبل ظہیر احمد اور ساجد محمود کے خلاف دفعہ 302 اور پولیس آرڈر 2002 کی دفعہ 155-C کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، تاہم ایف آئی آر میں ایس ایس پی کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
ایک معروف انسانی حقوق کی تنظیم نے اس اقدام کو انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل مجرم کو بچانے کے لیے نچلے درجے کے اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرے گی جس میں واقعے کی عدالتی تحقیقات اور ملوث اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔
ترجمان نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے ازخود نوٹس لینے، متعلقہ پولیس افسر کو عہدے سے ہٹانے اور اس ماورائے عدالت قتل پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مزید برآں، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان سے آزادانہ تحقیقات اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔