اسلام آباد(شہزاد انور ملک) پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے حلقے میں حالیہ دنوں میں اسلحہ کی طاقت اور بدمعاشی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے جس میں مذہب کے نام پر گروہ بندی، دھمکیاں، اور غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں۔ اسلام آباد اور گجر خان کے ملحہ علاقوں میں قاری نعیم اللہ ابدالی جیسے افراد نے علاقے کے معززین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان کی سرگرمیاں دہشت گردانہ، ناجائز اسلحہ کے استعمال اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کی شکل میں سامنے آئی ہیں، جن کے بارے میں متعدد ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
ایک ایف آئی آر میں تھانہ جاتلی پولیس نے ایک کارروائی کے دوران قاری نعیم اللہ ابدالی کی گاڑی کولٹس سے ناجائز اسلحہ برآمد کیا۔ گاڑی سے 9 ملی میٹر پستول، 12 بور کے شوز اور دیگر خطرناک سامان برآمد ہوئے، جنہیں ممکنہ طور پر دہشت گردی یا جرائم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ پولیس کی بروقت کارروائی نے ایک سنگین صورتحال کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری ایف آئی آر میں سرگودھا میں ایک غیر قانونی سرگرمی کی نشاندہی کی گئی، جہاں واجد حسین شاہ کے بیٹے اعجاز حسین اور ان کے کزن کو اغوا کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے اس کارروائی کے حوالے سے قاری نعیم اللہ ابدالی کی سیکیورٹی سے متعلق وضاحت پیش کی اور کہا کہ اس کے پاس گارڈز ہیں، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ قاری نعیم اللہ ابدالی علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ تمام واقعات اس بات کا غماز ہیں کہ قاری نعیم اللہ ابدالی نے مذہب کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا اور اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے اپنی مذہبی حیثیت اور سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھایا۔ اس کے ذریعے پورے علاقے میں بد امنی کی لہر پیدا ہو چکی ہے اور عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ حال ہی میں قاری نعیم اللہ ابدالی ایک والی بال ٹورنامنٹ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا، جس پر علاقے کے لوگ حیران تھے کیونکہ انہیں ان کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کا علم نہیں تھا۔
اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرنی چاہیے اور قاری نعیم اللہ ابدالی جیسے افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ ان کے جرائم کا سلسلہ روکا جا سکے اور علاقے میں امن قائم ہو سکے۔ ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ کی خرید و فروخت یا عوام میں خوف پھیلانے والی کسی بھی سرگرمی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرتی امن کے لیے ایسے مجرموں کا محاسبہ کرنا ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں۔
مزید پڑھیں: گجرات میں طوفانی بارش اور آندھی، درخت ٹوٹ گئے دیگر نظام زندگی متاثر
مزید برآں، تھانہ جاتلی کے پولیس اہلکاروں پر الزام ہے کہ وہ قاری نعیم اللہ ابدالی کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر ناجائز اسلحہ کی تقسیم میں ملوث ہیں۔ گوجر خان کے رہائشیوں کا مطالبہ ہے کہ قاری نعیم اللہ ابدالی کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی کارروائیوں کو مزید مضبوط کریں تاکہ اس طرح کے افراد مزید لوگوں کی زندگیوں کو متاثر نہ کر سکیں اور ان کے جرائم کا خاتمہ ہو سکے۔
یاد رہے کہ روشن پاکستان نیوز نے پہلے ہی قاری نعیم اللہ ابدالی کی اصلیت سے متعلق ایک رپورٹ پبلش کی تھی جس کے بعد ہمارے نمائندے کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ نمائندے کو کہا گیا کہ وہ معاشرے میں منافقت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق قاری نعیم کا بیٹا جو سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہےنے گذشتہ دنوں ایک پوسٹ کی تھی کہ کوئی ‘علم’ اتار رہا ہے یا لگا رہا ہے پر علاقے کے لڑکوں کیساتھ شدید لڑائی ہوئی تھی۔
اس لڑائی کو بنیاد بنا کر قاری نعیم نے انوکھے طریقے سے بدلہ لے لیا، ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ایف آئی آر میں بھی قاری نعیم کا ہاتھ تھا۔
قاری نعیم اللہ ابدالی کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ منہ پر چادر ڈالے ہوئے اور ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں پہنے نظر آ رہے ہیں۔