حیدرآباد(کرائم رپورٹر) حیدرآباد کے ایس ایس پی آفس میں ایک جونیئر کلرک کی کرپشن کی غیر معمولی داستان سامنے آئی ہے، جس نے دفتر کے اندر کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ شخص گزشتہ 11 سالوں سے “شیٹ کلرک انچارج” کے طور پر تعینات ہے، حالانکہ اس کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ اس عہدے کے لیے نہیں ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ جونیئر کلرک ایس ایس پی آفس میں تعینات ہونے کے باوجود اہلکاروں سے ماہانہ لاکھوں روپے بٹور رہا ہے۔ ان کے مطابق، ہر چھوٹی سے چھوٹی منتقلی اور ڈیوٹی لگانے کے بدلے اس شخص نے پولیس اہلکاروں سے پیسے مانگنا معمول بنا لیا ہے۔
مصدقہ ذرائع سے پتا چلا ہے کہ یہ شخص، جو نہ تو شیٹ کلرک کے عہدے کے لیے مطلوبہ اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی تعیناتی کے بارے میں کوئی واضح قانونی بنیاد موجود ہے، مسلسل حیدرآباد کے ایس ایس پی آفس میں شیٹ برانچ کے انچارج کی پوزیشن پر براجمان ہے۔ اس کی تعیناتی نہ صرف قواعد کے خلاف ہے بلکہ اس کی زندگی کے انداز سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس شخص نے کرپشن کے ذریعے دولت کمائی ہے۔ متعدد اہلکاروں نے انکشاف کیا کہ یہ شخص نہ صرف ایک عدد لگژری گاڑیوں کا مالک ہے، بلکہ اس کی زندگی کا معیار بھی ایس ایس پی کی طرح عیش و آرام سے بھرا ہوا ہے۔
اس جونیئر کلرک کی کرپشن کا سلسلہ گزشتہ سال سے مسلسل جاری ہے۔ ایک پولیس کانسٹیبل نے بتایا کہ یہ شخص ہر ماہ اہلکاروں سے بڑی رقم وصول کرتا ہے، اور ہر تاثر کے بدلے، جیسے کہ پوسٹنگ کی تبدیلی یا ڈیوٹی لگوانا، اس سے پیسے لیے جاتے ہیں۔ جب اس سے شکایت کی گئی، تو اس نے کہا کہ یہ کرپشن کا سلسلہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایس ایس پی کے دفتر میں موجود دیگر افسران اور اہلکار بھی اس کا حصہ ہیں، کیونکہ وہ اسے اوپر تک پہنچانے والی “کمی” کا حصہ بننے سے نہیں ہچکچاتے۔
ذرائع کے مطابق، یہ جونیئر کلرک اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنا تقریبا ناممکن بن چکا ہے۔ وہ اپنے اوپر موجود افسران کو رشوت دے کر اپنے معاملات ٹھیک رکھتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے خلاف کوئی بھی محکمانہ کارروائی نہیں کی جا رہی۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ شخص نہ صرف کرپشن کی بدترین مثال ہے بلکہ اس کی سرگرمیاں پولیس کے محکمہ کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: لاہور سے ارب پتی چور 15 سال میں پہلی بار گرفتار
حالیہ دنوں میں اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں، اور کئی اہلکاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایس ایس پی ڈاکٹر فرغ لنجار اس کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ ایک اہلکار نے کہا کہ “یہ شخص ادارے کے لئے ایک بدنامی کا باعث بن چکا ہے اور اسے فوری طور پر ہٹا کر محکمانہ کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ کرپشن کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔”
یہ واقعہ ایک بار پھر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ سندھ پولیس میں کرپشن کا معاملہ کب تک نظرانداز کیا جائے گا؟ پولیس کے اندر بدعنوانی کا یہ نیٹ ورک اور اس کے بارے میں اعلیٰ افسران کی خاموشی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ شفافیت اور احتساب کی کمی اس ادارے میں سنگین سطح پر موجود ہے۔
کیا حیدرآباد کے ایس ایس پی آفس میں اس بدعنوان جونیئر کلارک کے خلاف کارروائی ہوگی؟ یا یہ معاملہ بھی اسی طرح دب جائے گا؟ یہ دیکھنا باقی ہے۔