راولپنڈی(روشن پاکستان نیوز)پولیس چوکی قاضیان گوجر خان کے انچارج قمر شہزاد کی نگرانی میں پولیس غیر قانونی طور پر گھر میں داخل ہوئی ہمارے پاسپورت قانونی دستاویزات آئی فونز ہیں کسی قانون کے بغیر پولیس نے فونز اور پاسپورٹ ضبط کرلیے ایمرجنسی میں آسٹریلیا سے والد کی بیماری کے وجہ سے آیا والد کی 15روز بعد ڈیتھ ہوگئی والدہ موجود ہیں ۔گھر میں ہم چار لوگ تھے ۔میں آسٹریلیا میں ڈگری لی مجھے فخر تھا جس کا والد پانچ جماعت پاس اور محنت کش تھا چونکہ میں باہر سے آیا تو پولیس نے مال بنانے کے لیئے مخالف پارٹی بنیادی طور میرے چچا محمد اشتیاق کا ن لیگ گوجرخان سے تعلق ہے سے ملکر تنگ کیا،یہ ساری اراضی ہماری مشترکہ دادا کی تھی ۔چچا اور ہمارے والد کا حصہ تھا کورٹ کی جانب سے پراپرٹی سیل کرنے کا آڈر نہیں تھا ایک کنال سے زائد زمین ہم تین بھائیوں کے نام ہے اس گھر کے علاوہ ایک انچ بھی زرعی نہیں مگر ہماری شنوائی نہیں ہورہی۔وزیر اعظم ، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ، وزیر اعلی پنجاب آئی جی پنجاب جان کا تحفظ دیکر انصاف دلائیں ۔ ان خیالات کا اظہار آسٹریلیا میں مقیم چارٹرڈ اکائوٹنٹ احسن وقاص کی راولپنڈی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ احسن وقاص نے کہا کہ میں ایک چارٹرڈ اکائو ٹنٹ ہوں اور طویل عر صے آسٹریلیا میں مقیم ہوںمیں حال ہی میں اپنے والد کے انتقال پر پاکستان آیا تاکہ ان کی تدفین میں شرکت کر سکوں اور ان کے ایصالِ ثواب کے لیے دعائیہ رسومات ادا کر سکوں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ میرے والد کی تدفین کے فورا بعد، جب ان کی آخری رسومات بھی مکمل نہیں ہوئی تھیں، میرے ہی کچھ قریبی رشتہ داروں نے موقع کا فائدہ اٹھا کر ہمارے آبائی گھر پر قبضہ کرنے کی کوشش شروع کی یہ صرف ایک خاندانی جھگڑا نہیں بلکہ ایک مکمل سازش تھی۔ جس وجہ سے میں کورٹ میں اس کیس ڈیفنس کر رہا ہوں لیکن اب اس سازش میں بااثر مخالفین نے پولیس کی مدد سے نہ صرف غیر قانونی کارروائی کروائی بلکہ ہمارے گھر میں زبردستی داخل ہو کر ہمارے اہلِ خانہ کو ہراساں اور سخت زد کوب کیا۔27-06-2025بروز جمعہ شام تقریبا ساڑھے پانچ بجے، تھانہ گوجرخان سے تعلق رکھنے والی پولیس کی ٹیم بغیر کسی لیڈی پولیساور بغیر کسی وارنٹ اور بغیر کسی قانونی دستاویزکے ہمارے گھر میں داخل ہوئی۔ گھر میں صرف میری ضعیف والدہ، جن کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے، میری علیل اہلیہ، اور میری بھابھی موجود تھیں۔جو کہ صریحا ًقانون اور انسانی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ بعد میں جب پولیس اہلکاروں کو یہ اندازہ ہوا کہ گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور ان کی غیر قانونی حرکتیں ریکارڈ ہو رہی ہیں، تو اپنی کارروائی کو قانونی دکھانے کے لیے انہوں نے ایک لیڈی کانسٹیبل کو بلایا۔یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب اس جائیداد کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور اس پر اسٹے آرڈر بھی موجود ہے ۔ انہوںے بتایا میں نے تین مرتبہ 15 پر کال کی، لیکن کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ اس کے بعد میں خود تھانہ گوجرخان گیا تاکہ درخواست جمع کروا سکوں، مگر وہاں میری درخواست لینتے سے انکار کیا گیا مجھے صرف یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ یہ عدالت کا معاملہ ہے۔اگر واقعی یہ معاملہ عدالت کا ہے تو پولیس کو کسی بھی صورت ہمارے گھر میں داخل ہونے کا اختیار نہیں۔ اور اگر پولیس اس معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے تو پھر ہمیں بھی تحفظ فراہم کرنا اس کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کیا میری ضعیف والدہ، جو ٹانگ ٹوٹنے کے باعث بستر پر ہیں، اور میری علیل بیوی اور خواتین ان ظالم رویوں کا اکیلے سامنا کر سکتی ہیں؟ کیا قانون صرف بااثر افراد کے لیے ہے؟میں ایک اوورسیز پاکستانی اور کینیڈین شہری ہوں۔ کیا مجھے اس سرزمین پر تحفظ کا حق حاصل نہیں؟ کیا میرے ساتھ انصاف نہیں ہونا چاہیے؟ میں اس پریس کانفرنس کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، ، وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز، کمشنر راولپنڈی ، سی پی او آر پی او راولپنڈی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس غیر قانونی، غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائی کا فوری نوٹس لیںمیں میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ میری آواز بنیں۔ یہ صرف میری نہیں، ہر پاکستانی کی لڑائی ہے جو انصاف کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ یہ میرا پاکستان ہے، یہاں مجھے انصاف ملنا میرا حق ہے۔
