اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امورنے ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے کاریک ٹرینچ تھری منصوبہ کے حوالہ سے بولی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے سفارش کی کہ این ایچ اے دو دن کے اندر ایشیائی ترقیاتی بینک کو فرمز کی عدم تعمیل کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرے اور اس کی نقول وزیراعظم آفس اور کمیٹی کو بھی ارسال کی جائے، اقتصادی امور ڈویژن باضابطہ طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک کو آگاہ کرے کہ میسرز این ایکس سی سی اور آراے اینڈ ڈی سی کی بولیاں تکنیکی طور پر ناقص اور این ایچ اے افسران و کنٹریکٹرز کی بدنیتی کا نتیجہ تھیں۔ سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیرکویہاں چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان، محمد اعظم خان سواتی، سید وقار مہدی، فلک ناز، روبینہ خالد، سید فیصل علی سبزواری، کامل علی آغا سمیت متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے بتایا کہ 14ویں اجلاس سے کاریک ٹرانچ تھری منصوبے کاجائزہ لیاجارہاہے، انہوں نے پچھلے پانچ ماہ کی کلیدی مشاورت اور نکات پر بریفنگ دی اوربتایا کہ اس دوران کمیٹی نے کئی سنگین معاملات کی نشاندہی کی، جن میں این ایکس سی سی کی سابقہ نااہلی، ثالثی تنازعات، ادائیگیوں میں تضادات، دستاویزات میں ردو بدل اور ملی بھگت سے بولی لگانے کے طریقے شامل ہیں۔ کمیٹی نے بارہا این ایچ اے سے ورکس آرڈرز، تکمیلی سرٹیفکیٹس اور متعلقہ کمپنیوں کی بنیادی دستاویزات طلب کیں لیکن تاحال این ایچ اے نے یہ فراہم نہیں کیں، حالانکہ سی ای او این ایچ اے نے گزشتہ اجلاس میں یہ دو دن میں دینے کا وعدہ کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طورپریہ کنٹریکٹ آڈیٹر رپورٹس کی بنیاد پر دیا گیا اورمیسرز ننگشیا کمیونیکیشنزکنسٹرکشن کمپنی، میسرز ڈاینامیکس کنسٹرکٹرز اورمیسرز رستم ایسوسی ایٹس کی اسناد کو مناسب طریقے سے جانچا نہیں گیا ۔انہوں نے بتایا کہ کلیدی(لیڈ) پارٹنر کواس سے قبل ایشیائی ترقیاتی بینک کے تحت کاریک ٹرانچ ٹو منصوبے اوراے ڈی بی کی معاونت سے یارک-ژوب منصوبے میں نااہل قرار دیا گیا تھا تاہم اسے کاریک تھری منصوبہ میں اہل قرار دے دیا گیا۔ کمیٹی نے موقف اختیار کیا کہ میسرزننگشیا کمیونیکیشنزکنسٹرکشن کمپنی غیرفعال کمپنی ہے اور اس وقت لودھراں ملتان منصوبے سے متعلق مقدمے میں بھی شامل ہے، این ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ نے چونکہ منصوبہ پہلے ہی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ختم کر دیا تھا اس لیے محکمہ کو ثالثی پر راضی نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانا چاہیے تھا۔چیئرمین نے اس تشویش کابھی اظہارکیا کہ این ایچ اے نے ظفر حسین صدیقی کو ثالث تجویز کیا حالانکہ ان کا ماضی میں میسرزننگشیا کمیونیکیشنزکنسٹرکشن کمپنی کے جائنٹ وینچرپارٹنرز سے تعلق رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پبلک پرکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پیپرا) اس منصوبے سے متعلق شکایت پر پہلے ہی حتمی حکم جاری کر چکا ہے۔ سینیٹر محمد اعظم خان سواتی نے ایشیائی ترقیاتی بینک کی بولی کے معیاری طریقہ ہائے کارکے مطابق دستاویزات کے جائزے کے عمل ، ایشیائی ترقیاتی بینک کی پیشگی منظوری، اضافی لاگت اور فائدے کے تجزیے، ممکنہ اضافی اخراجات اور مستقبل کے ایڈجسٹمنٹس کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ بولی کی جانچ پڑتال کی رپورٹ اے ڈی بی کو بھجوانے سے پہلے تمام معاملات کو حل ہونا چاہیے تھا۔سینیٹر روبینہ خالد نے دریافت کیا کہ آیا ایشیائی ترقیاتی بینک نے کمپنی کو منصوبے میں شرکت کی اجازت کے حوالہ سے این اوسی دیا تھا؟ اس پر سپیشل سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اپنے حفاظتی معیارات ہیں اور بولیو تکنیکی رپورٹ پہلے ہی اے ڈی بی کو جائزے کے لیے بھجوائی جا چکی ہے۔ سینیٹر روبینہ خالد کے ایک اور سوال پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک بار جب قرض دینے والے اداروں کے بورڈز قرضوں کی منظوری دیتے ہیں تو ان پر دستخط ہو جاتے ہیں۔ اگر قرض کی رقم طے شدہ وقت میں استعمال ہو جائے تو کمٹمنٹ چارجز لاگو نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نرم قرضے معاشرتی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سینیٹرز نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ سیکرٹری وزارت مواصلات اور سی ای او این ایچ اے اجلاس میں موجود نہیں تھے، حالانکہ ان کی موجودگی مسئلے کے موثر حل کے لیے لازمی تھی۔ این ایچ اے کے حکام نے کمیٹی کو سینیٹ سیکرٹریٹ کے 4اگست 2025ء کے مکتوب بارے بتایا کہ تمام فرمز کو خطوط بھیجے گئے تھے لیکن انہوں نے مطلوبہ دستاویزات دینے سے انکار کر دیا۔سید فیصل علی سبزواری نے دریافت کیا کہ کیا این ایچ اے ہر منصوبے کے لیے ٹھیکیداروں کا سالانہ اوسط ٹرن اوور چیک کرتا ہے؟ کمیٹی کو بتایا گیا کہ آڈیٹر رپورٹس کو کافی سمجھا گیا اور محکمے نے انہیں جوں کا توں قبول کر لیا۔ سینیٹر روبینہ خالد نے نشاندہی کی کہ آڈیٹرز مالی بیانات انہی معلومات پر تیار کرتے ہیں جو فرمز خود فراہم کرتی ہیں۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ آڈیٹرز ایسے خطوط میں اپنی رائے دینے کے مجاز نہیں ہوتے اور معاملے کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ روبینہ خالد نے مزید تجویز دی کہ این ایچ اے لیڈ پارٹنر کا اسٹیٹس متعلقہ سفارتخانے سے تصدیق کرے۔ کمیٹی نے اس بات پربھی حیرت کا اظہارکیا کہ فرمز نے اپنے جوابات براہِ راست این ایچ اے کو دینے کے بجائے آڈیٹرز کو بھیجے۔ چیئرمین نے نشاندہی کی کہ سی ای او این ایچ اے نے دو دن میں مطلوبہ دستاویزات دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ پورا نہیں کیا۔ انہوں نے اعادہ کیا کہ اگر فرمز نے دستاویزات دینا جاری نہ رکھا تو اے ڈی بی کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔ جامع وتفصیلی مشاورت کے بعد کمیٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ این ایچ اے مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ مقامی فرمزڈی سی اینڈ آراے کے آڈیٹر نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس دستاویزات موجود نہیں اور دونوں کنٹریکٹرز نے بھی انہیں دینے سے انکار کر دیا جیسا کہ خطوط میں ظاہر ہے۔ کمیٹی نے مزید نتیجہ اخذ کیا کہ اے بی ایم اینڈکو نے آڈیٹر شیٹس تیار کیں۔ اس کے علاوہ ڈی سی اینڈ آراے اوسط سالانہ ٹرن اوور کے لازمی معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ آڈیٹرز کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات جعلی اور غیر تصدیق شدہ قرار پائیں۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اس منصوبے میں طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، لہٰذا اس نے بولی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ آڈیٹر کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا، پھر بھی اس نے کمیٹی میں ریکارڈ جمع کرایا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ این ایچ اے دو دن کے اندر ایشیائی ترقیاتی بینک کو فرمز کی عدم تعمیل کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کرے اور اس کی نقول وزیراعظم آفس اور کمیٹی کو بھی بھیجی جائیں۔ فیصل سبزواری نے تجویز دی کہ تمام جاری منصوبوں کے بڈنگ ڈاکیومنٹس کو این ایچ اے کی لیگل ٹیم یا کسی آزاد قانونی ماہر سے دوبارہ چیک کرایا جائے تاکہ قومی مفاد کا تحفظ کیا جا سکے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے این ایچ اے کے ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر سید وقار مہدی نے تجویز دی کہ معاملے کو چیئرمین سینیٹ کے دفتر کے ذریعے وزیرِاعظم سیکرٹریٹ کو بھیجا جائے۔ کمیٹی نے مزید سفارش کی کہ اقتصادی امور ڈویژن باضابطہ طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک کو آگاہ کرے کہ میسرز این ایکس سی سی اور آراے اینڈ ڈی سی کی بولیاں تکنیکی طور پر ناقص اور این ایچ اے افسران و کنٹریکٹرز کی بدنیتی کا نتیجہ تھیں۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ اے ڈی بی کے ساتھ اپنی رپورٹ شیئر کی جائے اور تینوں فرمز کو جعلی دستاویزات جمع کرانے پر بلیک لسٹ کیا جائے۔ کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ این ایچ اے آڈیٹر اے بی ایم اینڈکو کے خلاف جعلی رپورٹ جمع کرانے پر قانونی کارروائی کرے اور ثالث ظفر حسین صدیقی کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
