اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی قیادت میں موجود نگران حکومت نے اب تک بینکوں سے تقریباً 4 کھرب روپے کے قرض لینے کا ریکارڈ بنادیا ہے۔
قرض کے بھاری بوجھ تلے دبی معیشت 24-2023 کے آخر 30 جون تک قرض میں غیر معمولی اضافے کا شکار ہو سکتی ہے جب کہ حاصل کردہ رقم پہلے ہی پورے مالی سال 2023 میں لیے گئے مجموعی قرض سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے یکم جولائی سے 19 جنوری 2023-24 کے درمیان 3.99 ٹریلین روپے کا قرض لیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.398 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 185 فیصد زیادہ ہے۔
یہاں یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے باعث تعجب ہو سکتی ہے کہ حکومت گزشتہ 6 ماہ سے مقررہ ہدف سے زیادہ ریونیو جمع کر رہی ہے، نقد رقم حاصل کرنے لیے قابل فروخت کافی اثاثے ہونے کے باجود حکومت بڑھتے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے قرض لے رہی ہے۔
ذرائع نے وزارت خزانہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال کے 7 ماہ میں اوسطاً 28 فیصد سے زیادہ مہنگائی کے باعث حکومت زیادہ ریونیو حاصل کرنے میں کامیاب رہی، تاہم مہنگائی نے اخراجات میں بھی اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے وزارت بینکوں سے مزید قرض لینے پر مجبور ہے۔
محققین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاشی شرح نمو کی خراب صورتحال نظام حکومت چلانے کے لیے مناسب آمدنی نہیں دے رہی جب کہ حکومت کو ملکی اور غیر ملکی بڑے قرضوں کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کے گردشی قرض کی ادائیگی کے بڑھتے دباؤ کا بھی سامنا ہے جو کہ 5.7 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔
یہ 4 ٹریلین روپے کا قرض حکومت کے لیے بہت مہنگا ہے، کیونکہ ریٹرن تقریباً 21 فیصد ہے اور پورے مالی سال 2024 کے دوران اب تک تقریباً یکساں رہا ہے۔
صرف ماہرین ہی نہیں بلکہ حکومت بھی مانتی ہے کہ مہنگا قرض معیشت کے لیے بہت بڑی مشکل جبکہ پہلے ہی وہ بجٹ کے 50 فیصد سے زیادہ رقم قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے ادا کرنی پڑھ رہی ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ نگران حکومت اور گزشتہ 16 ماہ کی حکومت نہ صرف اس کو روکنے میں ناکام رہیں بلکہ دونوں حکومتیں قرض لینے پر انحصار کرتی رہیں۔
ان مہنگے قرضوں سے سب سے زیادہ فائدہ بینک اٹھا رہے ہیں، زیادہ تر بینکوں کا کیلنڈر ایئر 2023 میں منافع دوگنا ہوگیا۔