لاہور(روشن پاکستان نیوز)ملکی سیاست اور جمہوریت ان دنوں جن طوفانوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس میں یہ کہنا مشکل ہے کہ کسی حکومت، اسمبلی اور سیاسی جماعت یا قیادت کا مستقبل کیا ہو گااوراب چونکہ مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب بن گئی ہیں عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے اور اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے تو اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آگے کیا ہوتا ہے ۔
ان کی مراد تو وزارت عظمیٰ تھی مگر کمند راستے میں ٹوٹ گئی۔ سچی بات ہے کہ مریم نواز شریف سے زیادہ ان کے والد میاں نواز شریف کے لیے یہ دھچکے کا موقع بنا ہے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ اس میں بلاشبہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی رائے اور ووٹ کا دخل زیادہ ہے۔ لیکن محض یہ وجہ بہرحال نہیں ہے۔ منیر نیازی کے بقول ‘کچھ شہر دے لوگ وی ظالم سن’ ۔ بہرحال منزل انہیں ملی جو ‘شریک جبر’ نہ تھے۔
مزیدپڑھیں:مشی گن الیکشن، ٹرمپ اور بائیڈن کامیاب، غزہ پر احتجاج کا ووٹ کس طرف؟
اب میاں شہباز شریف کے لیے قرعہ نکلنے والا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے تمام تر تعاون اور رواداری کے باوجود سند قبولیت نہیں پائے سکے۔ بلاشبہ عوامی رائے کی اپنی اہمیت رہی ہے کہ عوام اور خصوصاً نئی نسل کے ووٹرز بالکل ایک دوسری سمت میں چلے گئے ہیں۔ ان کی حمائت ملنا بہت مشکل ہو گیا مگر سبب کچھ اور بھی تھا۔ ملک کو نواز دو کے بجائے شہباز کرے پرواز کا نظام چلے گا۔
بات مریم نواز کی ہو رہی تھی۔ ان کے عزائم بلند ہیں، تمنائیں عروج پر ہیں۔ مگر ان کے لیے چیلنج بھی چھوٹے اور تھوڑے نہیں ہیں۔ اس لیے اگر شروع میں ان کی بطور وزیر اعلیٰ ہوا بن گئی کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں تو مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں وزارت عظمیٰ کی لاٹری بھی ان کے نام نکل آئے۔ تاہم اس منزل تک پہنچنے سے پہلے ملک میں استحکام و ترقی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے طاقت، جبر اور انتقام کے لہجے کے بجائے کچھ اور کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے یہ ‘سودا’ کم ہی قائدین بیچتے ہیں۔
ملک عدم استحکام کی زد میں کس قدر دھنس چکا ہے کہ پی ڈی ایم کی سربراہی کرنے والے مولانا فضل الرحمان تک ناراض بچوں کی طرح برتن توڑنے سے آگے کی باتیں کر رہے ہیں۔ برتن سے مراد اُس سسٹم سے ہے جس سے انہیں اب شکایات پیدا ہوگئی ہیں۔ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ اس سے پہلے وہ اسی سسٹم کے ‘برتن’ میں کھاتے رہے ہیں اور حسب توفیق کہیے یا حسب نصیب ‘غیبی مدد’ سے بھی نہال ہوتے رہے ہیں۔ مگر اب حضرت شیخ کا قدم دوسری سمت میں ہے اور برتن میں چھید کی باتیں ہو رہی ہیں۔ (اللہ خیر کرے)
اس سے پہلے کہ کالم کا دامن سیاست، جمہوریت، حکومت اور قیادت کی طرح تنگ پڑ جائے۔ مریم نواز شریف سے اتنا عرض کرنا ہے کہ آپ نے نئی نسل کو اپنا ہمنوا بنانا ہے۔ یہ صرف اس صورت ہو گا کہ نئی نسل کے لیے کچھ کیا جائے۔ ان کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی سہولیات اور ماحول کو بہتر کیا جائے۔ تربیت کے کمزور رہ گئے پہلوؤں کو بہتر کیا جائے نہ ان کے پاس پہلے سے موجود سہولتوں پر بھی پنجاب حکومت ہاتھ صاف کرنے لگے اور اس ہاتھ کی صفائی کا الزام نئی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف پر لگتا رہے۔
جیسا کہ جمعہ کے روز جب اسمبلی کے ایوان میں سپیکر کے انتخاب کے لیے 224 ووٹ مریم نواز شریف کی جھولی میں ڈالے جا رہے تھے۔ عین اسی روز لاہور کے ایک پرائمری سکول کو تالے لگائے گئے ہیں۔ یہ سکول افغانستان میں نہیں ہے کہ وہاں طالبان پر بچیوں کی تعلیم کے دروازے بند کرنے کا الزام مغرب و امریکہ میں بطور خاص زبان زد عام ہے۔ یہ سکول لاہور شہر میں نئی بننے والی وزیر اعلیٰ کے شہر میں، ان کے والد کے انتخابی حلقے این اے 130 میں ہے۔
اس لیے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے علم یا مرضی کے بغیر اس سکول کو بند کر دیا جائے اور وہ سکول بچیوں کا ہو۔ ایک پرائمری سکول جو 1920 سے قائم چلا آرہا ہے۔ لیڈی میکلیگن کے نام سے ایک سو چار برسوں سے تعلیم دینے کا گہوارہ ہے اور جس روز اخبارات میں پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کی نامزدگی اور پہلے پارلیمانی اجلاس کی خبریں میڈیا میں زیر بحث ہوں اور عوام کے لیے ایک تحفے کے طور پر اس سکول کی سینکڑوں بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے جائیں اور سکول محکمہ تعلیم کی افسر شاہی کے دفاتر میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس فیصلے پر سوائے افسوس اور طعن کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
مزیدپڑھیں:مخصوص نشستیں چھینی گئیں تو تحریک انصاف کیا اقدام کرے گی؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتا دیا
یہ پہلو اور بھی قابل تشویش ہے کہ ایک طرف ایک وزیر اعلیٰ اس پنجاب کو پڑھا لکھا پنجاب بنانے کی بات کرتا رہا۔ سکولوں کے بچوں کو مفت کتب فراہم کرتا رہا اور دوسری جانب ایک خاتون کے وزیر اعلیٰ بننے کا عمل شروع ہوتے ہی سکول بند کیے جانے لگے ہیں۔ سکولوں پر عذاب کے دن تو غزہ میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ یہ لاہور میں سکولوں پر عذاب کیوں مسلط کیا جانے لگا، کون عذاب بننے لگے؟
نئی وزیر اعلیٰ سے تو توقع کی جانی چاہیے کہ انہوں نے جس طرح 2017 سے پہلے اسلام آباد میں چند تعلیمی اداروں کے لیے کچھ بسوں کا اعلان کیا تھا۔ اب وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کم از کم بچیوں کے کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ نہ رہنے دیں اور ہر تعلیمی ادارے کو اس کی ضرورت اور مطالبے کے مطابق بسیں دیں۔ اگر پیلی ٹیکسیاں آ سکتی ہیں تو نیلی بسیں کیوں متعارف نہیں ہوسکتیں؟
بجائے اس کے بچیوں کی تعلیم چھڑوائی جائے، خود بدنامی پائی جائے اور بچیوں کے غریب والدین سے بددعائیں اور لعن طعن کمائی جائے۔ بہتر ہوگا کہ نیک نامی اور مقبولیت میں اضافہ کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کتنا ہی برا ہو گا کہ سب سے پہلا برا کام مریم نواز شریف سے بچیوں کے اس سکول کی بندش کے حوالے سے یاد رکھنے کی بنیاد پڑے۔
اگر یہی کام کرنا ہے تو کسی اور شعبے میں کر لیا جائے۔ تعلیم اور صحت تو بنیادی حقوق سے متعلق معاملہ ہے۔ اس سے پرہیز کیاجائے تو بہتر ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ زبیدہ جلال پر بچوں کا ‘دودھ پی جانے’ کا الزام لگا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مریم نواز بچوں کے لیے سکولوں کی پرانی روائت کے مطابق دودھ کی فراہمی کا کریڈٹ لیں۔
بچوں کے لیے ہر آبادی میں کھیلوں کے میدان بنائیں اور مستقبل کی نئی سوسائٹیوں کے لیے لازمی قرار دیں۔ ان کی فیسوں کو کم کریں اور تعلیم و تربیت کے معیار کو بہتر بنائیں۔ نئی نسل کی گفتگو کے معیار اور لہجے کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کریں۔
ان کی سوچ کے زاویے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اس پر توجہ مبذول کریں۔ امید ہے کہ مریم نواز میکلیگن سکول جونیئر سیکشن برائے طالبات کی بندش ایک چیلنج کے طور پر لیں گی اور بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے میں اپنے آپ کو بااختیار ثابت کر سکیں گی۔