پیر,  22 دسمبر 2025ء
شادیوں میں کرنسی نچھاور کرنے کا بڑھتا رجحان، سماجی و اخلاقی اقدار پر سوالیہ نشان

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کے دوران گانے بجانے پر کرنسی نوٹ نچھاور کرنے کا رجحان ایک بار پھر شدید بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شادیوں، مہندی، ڈھولکی اور دیگر تقریبات میں نہ صرف پاکستانی کرنسی بلکہ ڈالرز اور دیگر غیر ملکی کرنسیاں بھی ہوا میں اچھالی جا رہی ہیں، جنہیں بعد ازاں لوگ زمین سے اٹھاتے یا پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں معروف سرائیکی گلوکار ذیشان روکھڑی کی تقریبات سے منسوب ویڈیوز نے بھی اس بحث کو مزید ہوا دی ہے، جن میں خواتین کی جانب سے انہیں ہار اور نوٹ پہنائے جا رہے ہیں، جبکہ بعض ویڈیوز میں خواتین کے لباس اور پردے کے فقدان پر بھی عوامی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رجحان پر عوامی، سماجی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پیسہ رزق ہے اور رزق کو اس طرح بے توقیر کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ معاشرتی اقدار کے بھی منافی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ایک طرف ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت عروج پر ہے، جبکہ دوسری جانب خوشی کے مواقع پر پیسے اس طرح ضائع کرنا ایک تلخ تضاد کی عکاسی کرتا ہے۔ کئی صارفین نے سوال اٹھایا کہ اگر یہی رقم کسی غریب، مستحق یا فلاحی مقصد کے لیے استعمال کر لی جائے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

ایک صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پیسے کی عزت کرو، مگر شادیوں میں خود اس کی بے حرمتی کرتے ہیں، یہ دوہرا معیار کب ختم ہوگا؟” ایک اور شہری کا کہنا تھا کہ “رزق اللہ کی نعمت ہے، اسے پاؤں تلے روندنا ناشکری ہے، خوشی منانے کے لیے فضول خرچی ضروری نہیں۔”

مزید پڑھیں: مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کی دوسری شادی کی تاریخ سامنے آگئی، دُلہن کون؟

دوسری جانب کچھ افراد اس عمل کو ثقافتی روایت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شادیوں میں نوٹ نچھاور کرنا خوشی کے اظہار کا ایک پرانا طریقہ ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ روایت سادگی تک محدود تھی، جبکہ آج کل سوشل میڈیا پر نمائش اور دکھاوے کی دوڑ نے اسے ایک منفی اور غیر مہذب شکل دے دی ہے۔

معاشرتی ماہرین کے مطابق شادیوں میں اسراف اور پیسے نچھاور کرنے کا رجحان دراصل سماجی دباؤ اور مقابلہ بازی کا نتیجہ ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ کر دکھاوا کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کرنسی کو تفریح اور تماشے کا ذریعہ بنانے سے نئی نسل کو یہ پیغام ملتا ہے کہ پیسے کی کوئی اہمیت نہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

عوامی سطح پر یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ شادی ہالز، ایونٹ مینیجرز اور فنکاروں کو اس طرح کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کئی خواتین صارفین نے رائے دی کہ خوشی کے مواقع پر اگر واقعی خوشی بانٹنی ہے تو فلاحی کام کیے جائیں، جیسے غریبوں کو کھانا کھلانا، بچوں کے لیے کتابیں یا کسی خیراتی ادارے کو عطیہ دینا۔

مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی اس عمل پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ اسلام میں اسراف اور نعمتوں کی بے قدری کی سخت ممانعت ہے، اور رزق کو پاؤں تلے روندنا یا اسے محض نمائش کا ذریعہ بنانا دینی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق ایسے مناظر معاشرے میں غلط مثال قائم کرتے ہیں اور اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں۔

اگرچہ فی الحال اس حوالے سے کوئی واضح قانونی پابندی موجود نہیں، لیکن سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی تنقید ظاہر کرتی ہے کہ عوام اب اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ کئی صارفین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آگاہی مہم کے ذریعے شادیوں میں سادگی، حیا اور ذمہ داری کے کلچر کو فروغ دیں۔

بالآخر یہ معاملہ صرف شادیوں میں پیسے نچھاور کرنے تک محدود نہیں بلکہ ہمارے مجموعی سماجی رویوں، ترجیحات اور اقدار پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عوامی رائے یہی ہے کہ خوشی منانا ہر کسی کا حق ہے، لیکن خوشی کے نام پر رزق کی بے حرمتی، اسراف اور غیر اخلاقی طرزِ عمل معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

مزید خبریں