بدھ,  03 دسمبر 2025ء
اینٹ بھٹا اور بدلتی ہوئی دنیا
اینٹ بھٹا اور بدلتی ہوئی دنیا

تحریر: اشرف مال
ہیومن رائٹس ڈفنڈر

پاکستان کی تعمیراتی صنعت ایک اہم تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے، جہاں روایتی ہاتھ سے بنی اینٹوں کی جگہ جدید مشینوں سے تیار کردہ اینٹیں لے رہی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف تعمیراتی معیار بہتر بنانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے امید کی نئی کرن بھی ہے جو برسوں سے قرض، جبری مشقت اور غیر انسانی حالات کے شکنجے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں روایتی بھٹوں پر کام کرنے والے خاندان نسل در نسل معاشی غلامی میں جکڑے رہتے ہیں۔ اکثر یہ سلسلہ کسی بزرگ کے انگھوٹھے سے شروع ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بچوں کی مزدوری، خواتین کا استحصال، کم اجرت، صحت کے غیر محفوظ حالات، دھواں، کوئلہ، کاربن اور سخت ماحول نہ صرف جسمانی امراض کو جنم دیتا ہے بلکہ ان افراد کے تعلیمی اور معاشی مستقبل کو بھی مسدود کر دیتا ہے۔

ان بھٹوں پر بچوں کی مزدوری (Child Labor) ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پانچ سے بارہ سال کے بچے صبح سویرے سے شام تک اینٹیں اُٹھانے، گننے اور صفائی کے کام میں جُتے رہتے ہیں۔ ان بچوں کا بچپن کھیل کے میدانوں میں نہیں گزرتا بلکہ دھول اڑاتے گزر جاتا ہے۔ جذباتی اور جسمانی نشوونما رک جاتی ہے، تعلیمی سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ختم ہوجاتا ہے، اور مستقبل اندھیروں میں گم ہوجاتا ہے۔

خواتین مزدور بھی سنگین مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ مردوں کے برابر محنت کرتی ہیں مگر اکثر کم اجرت پاتی ہیں۔ حمل کے دوران بھی کام جاری رکھنا پڑتا ہے، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، صاف پانی، بنیادی طبی امداد، اور محفوظ ماحول کا تصور تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ کئی علاقوں میں ہراسمنٹ اور جنسی استحصال کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر قانونی چارہ جوئی تک کم ہی پہنچتے ہیں۔

ایسے ماحول میں مشینی اینٹ سازی ایک انقلابی متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
فیصل آباد کے محمد عمر نے ریت سے چکنا ہونے والی مشینی اینٹ بنانے کا نظام تیار کیا ہے جو ڈیزل کے استعمال کو مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں:

“ریت سانچے سے صاف اور قدرتی انداز میں اینٹ کو الگ کرتی ہے اور اس کی سطح ایسی بنتی ہے جو سیمنٹ سے زیادہ مضبوطی سے جڑتی ہے۔ اس کے برعکس ڈیزل سے چکنا اینٹیں تیل کی تہہ چھوڑ جاتی ہیں جس سے جوڑ کمزور ہوتے ہیں اور پانی جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔”

نارووال، چنیوٹ اور فیصل آباد کے بھٹہ مالکان زیادہ مضبوط اینٹیں، بہتر سیمنٹ بائنڈنگ، اور پانی جذب کرنے میں بہتر کارکردگی کی رپورٹ دیتے ہیں۔ معمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اینٹیں اعلیٰ معیار کی ہاتھ سے بنی اینٹوں کے برابر یا اس سے بہتر ہیں۔

محمد عرفان کے مطابق، ریت سے چکنا اینٹیں برسات کے موسم میں بھی مضبوط رہتی ہیں اور سیمنٹ کے ساتھ مستحکم بندش پیدا کرتی ہیں۔

چنیوٹ میں تعمیرات کا کام کرنے والے منظور کہتے ہیں:

“یہ بہترین ہاتھ کی بنی اینٹوں جیسا تجربہ دیتی ہیں۔ ان کی طاقت حیران کن ہے، اور ہم انہیں گھر کی بنیادوں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔”

ایک اور مسترج محمد طارق کا کہنا ہے:

“چھ لاکھ سے زائد ریت چکنا اینٹیں بچھا چکا ہوں کبھی مسئلہ نہیں آیا۔ جوڑ مضبوط رہتے ہیں، اور سرکاری منصوبوں میں بھی ان کا استعمال عام ہو رہا ہے۔”

جدید نظام میں ریت کو سانچے سے اینٹ الگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اینٹ پر کوئی تیل یا کیمیکل نہیں لگتا اور نہ ہی دھواں پیدا ہوتا ہے۔ ریت قدرتی طور پر اینٹ کی سطح کو اس طرح صاف کرتی ہے کہ سیمنٹ اس پر زیادہ مضبوطی سے جم جاتا ہے، جبکہ ڈیزل یا تیل سے چکنی اینٹوں پر بننے والی تہہ جوڑ اور بائنڈنگ کو کمزور کرتی ہے اور پانی جذب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ مختلف شہروں میں مزدوروں، معماروں اور بھٹہ مالکان نے مشاہدہ کیا ہے کہ ریت سے تیار شدہ مشینی اینٹیں یکساں معیار، زیادہ مضبوطی، بہتر بائنڈنگ اور بارش میں زیادہ پائیداری رکھتی ہیں۔ کئی معماروں کے مطابق ان اینٹوں کا معیار بہترین ہاتھ کی بنی اینٹوں کے برابر یا اس سے بہتر ہے، جبکہ ان کا استعمال گھروں کی بنیادوں سمیت بڑے تعمیراتی منصوبوں میں بھی کیا جا رہا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی صرف تعمیرات کی بہتری کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی بحالی کا راستہ بھی ہے۔ ہاتھ سے اینٹیں ڈھالنے کے عمل میں بے پناہ جسمانی مشقت درکار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مزدور ہمیشہ قرض اور محنت کی چکی میں پستے رہتے ہیں، جبکہ مشینی نظام میں محنت کی نوعیت تبدیل ہو کر آپریٹر، مکینک، سپروائزر اور ٹیکنیشن جیسے ہنر پر منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ تبدیلی بہتر اجرت، جدید ہنر اور نئی نسل کے لیے تعلیم و تربیت کے دروازے کھولتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ بچے جو صبح سے شام تک گرد آلود ماحول میں اینٹیں اٹھاتے تھے، اب اسکول، ہنر سیکھنے والے مراکز اور صحت مند معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ خواتین جو کم اجرت اور استحصال کا شکار تھیں، اب محفوظ ماحول اور بہتر معاشی مواقع حاصل کر سکتی ہیں۔

مختلف تجربات اور انجنئیرنگ شواہد سے ثابت ہوا ہے کہ تیل استعمال کرنے والی اینٹیں وقت کے ساتھ کمزور جوڑ رکھتی ہیں، جبکہ ریت سے تیار شدہ اینٹیں زیادہ مضبوطی سے گارے میں جڑتی ہیں، پانی بہتر جذب کرتی ہیں اور پائیداری میں نمایاں فرق رکھتی ہیں۔ مقامی کاریگروں اور تجربہ کار مزدوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ نئی اینٹیں نہ صرف زیادہ خوبصورت اور یکساں ہیں بلکہ جدید تعمیرات کے معیارات پر بھی پوری اترتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ماحول دوست بھی ہے کیونکہ اس میں دھواں، کوئلہ اور مضر گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے فضائی آلودگی اور صحت کے مسائل کم ہوتے ہیں۔

اصل سوال یہ نہیں کہ مشینیں مزدوروں کی جگہ لے لیں گی، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم نسلوں سے جاری استحصالی نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا اسے جدید تکنیک کے ذریعے انسان دوست اور باوقار بنانا چاہتے ہیں؟ مشین سازی کا مقصد مزدور کو کام سے نکالنا نہیں، بلکہ اسے مشقت سے نکال کر ہنر مند بنانا ہے۔ اگر ملک اس سمت درست پالیسی سازی کرے، قرض داری نظام کو ختم کرے، صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرے، اور جدید اینٹ سازی کو فروغ دے تو بھٹے غلامی کی علامت نہیں بلکہ ترقی کے مراکز بن سکتے ہیں۔

اینٹ صرف تعمیر کا پتھر نہیں ہوتی، یہ ہماری اجتماعی اخلاقیات اور سماجی انصاف کی بنیاد بھی ہوتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایسی اینٹیں بنیں جو جسموں کو نہیں، قوم کو مضبوط کریں ایسی اینٹیں جو مستقبل تعمیر کریں، نہ کہ انسانوں کو مٹی میں دفن کریں۔

مزید خبریں