اتوار,  09 نومبر 2025ء
تحریکِ ریشمی رومال — خوابِ حریت کی پوشیدہ داستان

(قسط اول: آغاز اور پس منظر)
تحریر: عدیل آزاد

برصغیر کی تاریخ میں کچھ تحریکیں ایسی ہیں جو نعروں اور جلوسوں کے شور میں نہیں، بلکہ خاموشی کی گہرائیوں میں پروان چڑھیں۔
ان کے کارکن جلسوں کے اسٹیج پر نہیں، قید خانوں کے اندھیروں میں اپنے خواب سجاتے رہے۔
ایسی ہی ایک تحریک تھی — تحریکِ ریشمی رومال۔

یہ 1914 کا زمانہ تھا۔ دنیا جنگِ عظیمِ اوّل کی لپیٹ میں آ چکی تھی۔ برطانوی سامراج پوری طاقت سے دنیا پر قابض تھا، مگر ہندوستان کے مسلمانوں کے دل میں ایک ہی جذبہ موجزن تھا —
“ہم آزاد ہوں گے!”

اس جذبے کو زبان دینے والے وہ علماء تھے جنہوں نے علم کے منبر سے ہٹ کر، جہادِ آزادی کے میدان کا رخ کیا۔
ان میں سب سے نمایاں نام تھا شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کا — دارالعلوم دیوبند کے وہ بزرگ استاد جنہوں نے اپنی علمی عظمت کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت سے بھی تاریخ رقم کی۔

شیخ الہند کے ساتھ مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد میاں اور کئی دیگر رفقا شامل ہوئے۔
انہوں نے محسوس کیا کہ آزادی کے لیے اب خفیہ تحریک کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔
چنانچہ ایک منصوبہ تیار ہوا کہ افغانستان، ترکی اور جرمنی کے ساتھ رابطہ قائم کر کے، ایک منظم مسلح بغاوت کے ذریعے انگریزوں کی حکومت کو گرا دیا جائے۔

یہ پیغامات عام خطوں میں نہیں لکھے جاتے تھے — بلکہ ریشمی رومالوں پر تحریر کیے جاتے تھے تاکہ اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو پیغام محفوظ رہے۔
یہی ریشمی پیغامات اس تحریک کی پہچان بن گئے، اور یوں تاریخ میں اس کا نام درج ہوا:
“تحریکِ ریشمی رومال”۔

یہ وہ وقت تھا جب غلام قوم کے خواب خفیہ منصوبوں کی شکل میں بُنے جا رہے تھے۔
کسی کے پاس بندوق نہ تھی، مگر ایمان کی حرارت اور امید کا ریشمی دھاگا مضبوط تھا۔
اسی دھاگے سے انہوں نے ایک خواب بُنا — آزادی کا خواب۔

(جاری ہے — اگلی قسط: “ریشمی رومال کا راز”)

مزید خبریں