منگل,  04 نومبر 2025ء
غزہ میں بین الاقوامی سکیورٹی فورس کی تجویز پر عالمی ردِعمل — “نو سامراجی منصوبہ” قرار

واشنگٹن / انقرہ / اسلام آباد (عدیل آزاد) — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں دو سال کیلئے بین الاقوامی سکیورٹی فورس تعینات کرنے کی تجویز نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
جہاں امریکا نے اس منصوبے کو “امن کے قیام” کا حصہ قرار دیا ہے، وہیں عرب و مسلم دنیا کے کئی حلقے اسے “نئی سامراجی حکمتِ عملی” اور “ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کا نو-استعماری منصوبہ” قرار دے رہے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے بیس نکاتی منصوبے میں تجویز پیش کی کہ غزہ کی سکیورٹی ایک ’’بین الاقوامی استحکام فورس‘‘ کے سپرد کی جائے جو دو برس تک انتظام سنبھالے،
اور بعد ازاں مقامی پولیس کی تربیت کے بعد اختیار منتقل کرے۔ تاہم، منصوبے کے دیگر نکات — مثلاً غزہ کے نظم و نسق کے لیے ایک “بورڈ آف پیس” کا قیام اور عبوری انتظامیہ کی تشکیل — نے کئی ممالک میں تشویش پیدا کی ہے۔

نو-استعماری خدشات

الجزیرہ نے اپنے اداریے میں ٹرمپ کے اس پلان کو ’’غزہ کی نوآبادیاتی قبضہ گیری کی جدید شکل‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ:

“یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو پامال کر کے ان کے مستقبل کو بین الاقوامی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔”

مڈل ایسٹ آئی نے اپنی رپورٹ میں اس تجویز کو “Colonial Thinking” سے تعبیر کیا،
جبکہ پاکستانی روزنامہ ڈان کے ایک کالم میں اسے “Neo-Colonial Fantasy” قرار دیا گیا،
جس کا مقصد — بقول مصنف — “غزہ کی زمین کو ایک قیمتی غیرملکی جائیداد میں تبدیل کرنا ہے۔”

عالمی ردِعمل

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے انقرہ میں بیان دیا کہ:

“غزہ کو بیرونی فوجی قبضے کے تحت لانا کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ سامراجی ذہنیت کی واپسی ہے۔”

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی اس مجوزہ منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:

“کوئی بھی غیرملکی فورس، اگر فلسطینی عوام کی مرضی کے بغیر مسلط کی گئی، تو اسے قبضے کے مترادف سمجھا جائے گا۔”

عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے قاہرہ میں بیان دیا کہ:

“غزہ کی تعمیرِ نو فلسطینی قیادت اور مقامی شراکت داری کے بغیر ممکن نہیں۔
کوئی بھی ‘امن فورس’ اصل خودمختاری کی جگہ نہیں لے سکتی۔”

سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے

عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کا یہ منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کے ازسرِنو قیام کی ایک کوشش ہے،
جو برطانوی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔
کئی مبصرین کے مطابق، یہ منصوبہ ’’نرم قبضے‘‘ (Soft Occupation) کی شکل ہے،
جس میں عسکری بجائے اداریاتی کنٹرول کے ذریعے اثرورسوخ قائم رکھا جائے گا۔
تجزیاتی نوٹ:
یہ بیانات اور تبصرے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب غزہ میں انسانی المیہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے،
اور عالمی طاقتیں اس صورتحال کو اپنے سیاسی و معاشی مقاصد کے لیے استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

 

مزید خبریں