هفته,  18 اکتوبر 2025ء
پاکستان، امریکہ، افغانستان اور تاریخ کا خیمہ

تحریر: فاروق فیصل خان

کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، مگر ہمارے ہاں تو تاریخ نے شاید مستقل خیمہ ڈال رکھا ہے۔ ہر چند برس بعد وہی نعرے، اور سب سے بڑھ کر وہی “افغانستان کارڈ۔

ساٹھ کی دہائی میں جب امریکہ نے صدر ایوب خان کو “پاکستان کا دوست” کہا تو فیلڈ مارشل صاحب کے چہرے پر بھی “واشنگٹن والی مسکراہٹ” آ گئی۔ امداد کے ڈالر برسنے لگے، دفاعی معاہدے طے ہوئے، اور ہم سمجھ بیٹھے کہ دنیا ہماری مٹھی میں ہے۔ نتیجہ کیا نکلا، امداد بند، خواب ٹوٹے، اور تاریخ نے ایک نیا موڑ لے لیا۔

پھر آئے مرد مومن ضیاالحق اور افغان جہاد کا زمانہ، اور “روس کا مقابلہ اسلام کے نام پر!” کا نعرہ۔ جنرل صاحب نے اتنی مہارت سے افغان جنگ کو “اسلامی خدمت” میں بدلا کہ ڈالر بھی آئے، اسلحہ بھی آیا، اور “مجاہدین” بھی۔ ضیاالحق نے افغانستان کے نام پر اپنے اقتدار کو ایسا طول دیا کہ خود وقت بھی تھک گیا۔نتیجہ کیا نکلا امداد بند ،خواب ٹوٹے اور تاریخ کا سفر جاری رہا۔

پھر آئے مشرف صاحب، وردی میں روشن خیالی کے ساتھ۔ ایک فون کال آئی اور “یو ٹرن” کا ریکارڈ قائم ہو گیا۔ “ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں” کا نعرہ لگا، دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی، اور پاکستان ایک بار پھر میدانِ جنگ بن گیا۔ افغانستان کے نام پر مشرف صاحب نے دنیا کے سامنے “چہرہ روشن” رکھا اور اندر سے قوم کے اعصاب تار تار کر دیے۔نتیجہ کیا نکلا،امداد بند اور پاکستان دھوکہ باز قرار دیا گیا

اور اب منظر پر نئی فلم چل رہی ہے “ٹرمپ فیلڈ مارشل اور شہباز شریف کے صدقے واری جا رہے ہیں !” امریکہ پھر سے مسکرا رہا ہے، افغانستان پھر سے دہک رہا ہے، اور ہمارے حکمران پرامید ہیں کہ شاید اس مرتنہ ڈالر اور تعریف دونوں ایک ساتھ برسیں گے۔بس دعا یہی ہے کہ تاریخ اس بار اپنا خیمہ سمیٹ لے، اللہ خیر کرے، افغانستان میں جب بھی آگ لگتی ہے، دھواں ہمیشہ اسلام آباد تک پھیلتا ہے۔

مزید خبریں