تحریر: فاروق فیصل خان
سیاست کے تھیٹر میں پردہ کب اٹھتا ہے، کب گرتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ کل تک ٹی وی کیمروں کے سامنے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ترجمان ایک دوسرے پر حملہ آور تھے، “وعدے توڑنے والے”، “وزارتوں کے بھوکے”، “معاشی تباہی کے ذمہ دار”۔ ہر بیان ایک چنگاری تھی، ہر ردعمل ایک شعلہ تھا، میڈیا اس منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا، سوشل میڈیا پر میمز کا میلہ لگا تھا، سرکار سے وابستہ لکھاری اور درباری دانشور پریشان تھے کہ لگی لگائی روٹی اس لڑائی کی نذر نہ ہو جائے۔
پھر اچانک کسی نے ریموٹ سے آواز بند کر دی ، خاموشی چھا گئی۔ وہی ترجمان جو کل تک مائیک کے نیچے سانس نہیں لینے دیتے تھے، آج ٹوئیٹر پر بھی “آف لائن” ہیں۔ سیاسی درجہ حرارت نارمل، ٹی وی ٹاک شوز کے موضوع بدل گئے، نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے ایسے منہ بند کیے جیسے ٹچ بٹنوں کی جوڑی ہو۔
اور یہی وہ موقع ہے جب بھولے کی بات یاد آتی ہے ، وہی بھولا جو اکثر چائے کے ڈھابے پر سیاست پر طنز کرتا ہے، اور جس کی زبان پر کبھی فلٹر نہیں ہوتا۔ اس نے محاذ آرائی کے آغاز پر ہی کہا تھا، سب ملی بھگت ہے، بھائی جب تک عمران خان اور پی ٹی آئی زندہ ہیں، یہ سب ایک ہی کمانڈ کی تابع ٹیم ہے۔
اور دیکھو، بھولا ٹھیک نکلا۔ دو ہفتے کی لفظی جنگ، ایک دوسرے پر الزامات کے تیر، وزارتوں کے تنازعات، غریب کے دشمن، کارکردگی پر سوال، شجروں کی پڑتال، ایک دن بلاول کہتا ہے “ہم حکومت میں نہیں، سڑک پر ہوں گے”، اگلے دن خبر آتی ہے “بلاول وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے لیے پہنچ گئے”۔ ایک دن خواجہ آصف گرجتے ہیں کہ “یہ سندھ ماڈل نہیں چلے گا”، اگلے دن وہی رہنما مسکراتے ہوئے کہتے ہیں “بلاول بھٹو ہمارا چھوٹا بھائی ہے”۔
گویا سیاست کا موسم بھی پوٹھوہار کے موسم جیسا ہے، صبح بارش، دوپہر کو دھوپ، شام کو دوبارہ بادل۔
اب منظر یہ ہے کہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ شاید “ڈیل” ہو چکی، یا پھر احساس ہو گیا کہ لڑائی سے نقصان صرف عمران خان مخالف اتحاد کو ہو گا۔ کیونکہ بھولے کی تھیوری یہی کہتی ہے “جب تک عمران خان زندہ ہے، سب کی دوستی زندہ رہے گی۔ کل تک اختلاف رائے کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے والے چچا بھتیجا اور بہن بھائی کی صورت میں سامنے ا رہے ہیں۔اور ہمیں
بھولے کی بات یاد آتی ہے ، وہی ڈھابے والا فلسفی جس نے چائے کی پیالی میں اٹھتے طوفان پر کہا تھا
“پاکستان کی سیاست میں جھگڑے بھی اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں، اور مفاہمت بھی، سب کچھ پلان کے مطابق چل رہا ہے، بس سادہ لوح کارکن سنجیدہ لے لیتے ہیں۔