هفته,  13  ستمبر 2025ء
اسلام اور پردے کے بارے میں رابی پیرزادہ اور حمزہ علی عباسی کے بیانات پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان کی سابقہ گلوکارہ اور موجودہ سماجی کارکن رابی پیرزادہ اور معروف اداکار و ماڈل حمزہ علی عباسی ایک بار پھر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان دونوں شخصیات کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں انہوں نے اسلام میں پردے کے احکام سے متعلق بعض آراء کا اظہار کیا۔ ویڈیوز کے مطابق، دونوں نے یہ مؤقف اپنایا کہ پردے کا شرعی حکم صرف نبی کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے مخصوص تھا، اور یہ عام مسلمان عورتوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ ان بیانات پر عوام کی بڑی تعداد نے ردعمل دیا اور اسے قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف قرار دیا۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔ صارفین کی جانب سے رابی پیرزادہ اور حمزہ علی عباسی کے مذہبی فہم پر سوال اٹھاتے ہوئے سخت تنقید کی گئی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان کے بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی شخصیات کو دین کے حساس معاملات پر رائے دینے سے پہلے دینی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ حکم ازواجِ مطہرات کے لیے تھا، تو کیا وہ ہمارے لیے نمونہ نہیں؟ ہمیں بھی وہی کرنا ہے جو ہماری پاکیزہ ماؤں نے کیا۔ ایک اور صارف نے طنزاً لکھا کہ اگر رابی پیرزادہ نے چہرے کا پردہ کر لیا تو ان کی شہرت ختم نہیں ہو جائے گی، بلکہ انہیں اس سے عزت ہی ملے گی۔ اسی طرح ایک خاتون صارف نے کہا کہ آج کے دور میں اداکار اور اداکارائیں فتوے دیں گے، تو سمجھ لیں ہم آخری زمانے کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔

علماء اور دینی حلقوں کی جانب سے بھی معاملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں پردے کا حکم صرف نبی ﷺ کی ازواج کے لیے نہیں بلکہ تمام مؤمن عورتوں کے لیے واضح طور پر موجود ہے۔ سورۃ النور کی آیت 31 میں کہا گیا ہے: “اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں… اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں۔” اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت 59 میں ارشاد ہے: “اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔” یہ آیات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ پردہ ایک جامع دینی حکم ہے، جو صرف ازواجِ مطہرات تک محدود نہیں۔

حدیث مبارکہ میں بھی پردے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: “عورت پردہ ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکنے لگتا ہے۔” (ترمذی)۔ دوسری روایت میں فرمایا: “اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔” (ابوداؤد)۔ یہ تمام دلائل اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ اسلام میں پردہ عورت کے لیے فرض ہے اور یہ اس کی عزت، وقار اور تحفظ کا ذریعہ ہے۔

مزید پڑھیں: بالی وڈ اداکارہ دیشا پٹانی کے گھر کے باہر اندھا دھند فائرنگ، حملہ کیوں ہوا؟ گروپ نے ذمہ داری قبول کرلی

فقہی نقطہ نظر سے بھی اس بات پر تقریباً اجماع ہے کہ عورت کے لیے پردہ لازم ہے۔ جمہور علما کے نزدیک عورت کا پورا جسم، بشمول چہرہ، پردے میں شامل ہے، اگرچہ کچھ فقہی مکاتبِ فکر چہرے اور ہاتھوں کی اجازت عام حالات میں دیتے ہیں، تاہم فتنہ یا خطرے کے وقت اسے بھی ڈھانپنا واجب قرار دیتے ہیں۔ بال، بازو، زینت، ٹانگیں اور سینہ ہر صورت میں پردے کے دائرے میں آتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسلام عورت کو قید نہیں بلکہ عزت و عفت کے حصار میں رکھتا ہے۔ پردہ صرف لباس نہیں بلکہ نظریں، کردار اور طرزِ زندگی کا مکمل نظام ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ دور میں کچھ مشہور شخصیات سستی شہرت یا غلط فہم کے باعث ایسے حساس موضوعات پر رائے دے کر عوام کو الجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ دین کے معاملات میں اظہارِ رائے سے قبل مستند علما سے رجوع کریں تاکہ کوئی گمراہی یا غلط بیانی کا سبب نہ بنے۔

مزید خبریں