منگل,  12  اگست 2025ء
لندن میں بارات کی گاڑیوں کی لمبی قطار پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی
لندن میں بارات کی گاڑیوں کی لمبی قطار پر سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی

لندن(روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک شادی کی بارات کو گاڑیوں کے ایک طویل قافلے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ کچھ افراد ڈھول کی تھاپ پر سڑک کے بیچوں بیچ چلتے ہوئے جشن منا رہے ہیں۔ یہ ویڈیو مبینہ طور پر برطانیہ کے شہر لندن کی ہے، جہاں باراتیوں نے پورا روڈ بلاک کر دیا، جس کے باعث ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی۔

ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ بعض افراد نے اسے پاکستانی ثقافت کی خوبصورتی قرار دیا، تو کچھ نے اسے بیرونِ ملک مقامی قوانین اور سوسائٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔

سوشل میڈیا پر آراء

ایک صارف شیراذ احمد چایچی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

“جہاں بھی جائیں، مہاجر بن کر نہ رہیں بلکہ مقامی ثقافت کو اپنائیں، مقامی زبان سیکھیں، اور اُس ملک کی اجتماعی سوچ میں ڈھلنے کی کوشش کریں۔”

دوسری طرف کاشف وارثی نے طنزیہ انداز میں لکھا:

“یہ انگریز تھے جو برداشت کر گئے، عرب ہوتے تو پوری بارات پاکستان ہوتی۔”

صارف ری اسف کا کہنا تھا کہ:

“ان لوگوں نے یہ کام زبردستی نہیں کیا، برطانیہ نے خوشی سے اجازت دی ہے۔”

جبکہ محمد خان نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا:

“بس انہی کی گندی حرکتوں کی وجہ سے یہ لوگ ہمارے لوگوں سے متنفر ہوتے ہیں۔”

ایک اور صارف محمد اویس نے لکھا:

“اتنی گوروں کو تکلیف نہیں ہو رہی جتنی آپ کو ہو رہی ہے، اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ اجازت لی ہو گی۔”

قانونی پہلو اور عوامی رویہ

ویڈیو کے تناظر میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا باراتیوں نے مقامی پولیس یا ٹریفک حکام سے اس جشن کے لیے پیشگی اجازت حاصل کی تھی یا نہیں۔ برطانیہ میں ٹریفک قوانین سخت ہیں اور سڑکوں پر اس قسم کے اجتماعات یا تقاریب کے لیے باقاعدہ اجازت لینا لازمی ہوتا ہے۔ اگر اجازت نہ لی گئی ہو تو اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے، اور جرمانے یا دیگر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

کچھ حلقے اس طرزِ عمل کو “ثقافتی ہٹ دھرمی” بھی قرار دے رہے ہیں اور یہ دلیل دے رہے ہیں کہ پاکستانی یا جنوبی ایشیائی برادری کو بیرونِ ملک رہتے ہوئے وہاں کے قوانین اور سماجی اقدار کا زیادہ احترام کرنا چاہیے، تاکہ مقامی آبادی کے ساتھ میل جول بہتر ہو اور پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں مثبت تاثر قائم ہو۔

مزید پڑھیں: برطانیہ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ، عالمی اتحادیوں سے مشاورت

شادی کی خوشی اور اپنی ثقافت کو منانا ہر کسی کا حق ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ قانون، سماجی آداب، اور مقامی لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک واقعہ پوری قوم یا کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتا، لیکن ایسے واقعات کا تاثر عالمی سطح پر کمیونٹی کے بارے میں رائے ضرور بدل سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ثقافت کا اظہار حدود کے اندر ہو — جہاں خوشی بھی ہو اور قانون شکنی بھی نہ ہو۔

مزید خبریں