اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) 14 سالہ معصوم بچے فرحان کے ساتھ مدرسے میں ہونے والی ظالمانہ تشدد کی واقعہ نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ المناک واقعہ صرف ایک قتل کی کہانی نہیں بلکہ ان بدنما داغوں کو بھی ظاہر کرتا ہے جو بعض نام نہاد مذہبی اداروں کے اندر موجود ہیں۔ فرحان کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے اپنے باپ کو سعودی عرب سے فون کرکے کہا تھا کہ وہ مدرسے میں نہیں رہنا چاہتا، کیونکہ وہاں اسے استاد کی جانب سے ناجائز حرکات کا سامنا تھا اور وہ شدید خوفزدہ تھا۔ باپ نے ابتدا میں بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی اور چچا کو بھیجا، جو فرحان کو مدرسے سے لے آیا۔ تاہم، مدرسے کے ذمہ داروں نے چچا کو یقین دلایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور بچے کو کوئی خطرہ نہیں۔ مگر چچا کے جانے کے بعد ہی فرحان کو اس کے استاد، اس کے بیٹے اور دیگر اہلکاروں نے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
فرحان پر زنجیروں، ڈنڈوں اور ٹھڈوں سے اتنا ظلم کیا گیا کہ وہ سسک سسک کر جان دے گیا۔ سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارا عمل تقریباً 150 بچوں کے سامنے کیا گیا، جو خود بھی خوف کے مارے کچھ نہ کرسکے۔ کسی نے اگر بچے کو پانی پلانے یا مدد کرنے کی کوشش کی تو اسے دھمکایا گیا۔ فرحان نے اپنے آخری لمحات میں بھی اپنے باپ کو یہ پیغام دیا تھا کہ مدرسے میں اسے استاد کی طرف سے ہراساں کیا جاتا تھا۔
اس واقعے کے بعد مدرسے کے استاد اور اس کا بیٹا فرار ہوگئے ہیں، جبکہ 4 سے 6 دیگر ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ فرحان کے باپ کو اپنے فیصلے پر شدید پچھتاوا ہے، جو کہتا ہے کہ کاش اس نے اپنے بیٹے کی بات مان لی ہوتی۔
مزید پڑھیں: مدرسہ رجسٹریشن آرڈیننس کو قومی اسمبلی سے جلد از جلد منظور کیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل
یہ واقعہ صرف ایک المیہ نہیں بلکہ ایک سنگین انتباہ ہے کہ مدرسوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بچوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف انفرادی زندگیوں کو تباہ کرتے ہیں بلکہ اسلام جیسے پرامن مذہب کو بھی بدنام کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام مدارس کا باقاعدہ آڈٹ کرے، غیر رجسٹرڈ اداروں کو بند کرے، اور بچوں کے خلاف کسی بھی قسم کے استحصال یا تشدد کے لیے سخت ترین سزائیں مقرر کرے۔ عوام سے اپیل ہے کہ اگر انہیں مفرور ملزمان میں سے کوئی نظر آئے تو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دیں، تاکہ انصاف کا عمل تیز ہو سکے۔