اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں لائیو سٹریمنگ سوشل میڈیا ایپس جیسے ٹک ٹاک اور بیگو لائیو پر فحش اور نازیبا مواد کی بھرمار نے معاشرتی حلقوں، والدین اور تعلیمی اداروں میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر لائیو گالیاں دینا، کپڑے اتروانا، نازیبا حرکات کرنا اور بعض اوقات “سزائیں دینے” جیسے نام پر غیر اخلاقی مظاہرہ کرنا عام ہوتا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف نوجوانوں کے اخلاق و کردار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ سوشل میڈیا کو بھی مجرمانہ سرگرمیوں کا ذریعہ بنا رہا ہے، جہاں جسم فروشی جیسے گھناونے دھندے کو آن لائن فروغ دیا جا رہا ہے۔
اس قسم کے مواد کو دیکھنے اور لائیو میں شرکت کرنے والے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے، اور چونکہ اس طرح کی ویڈیوز پر زیادہ رقم ملتی ہے، اس لیے مالی فائدے کی خاطر بعض افراد اخلاقی حدود کو مکمل طور پر پامال کرنے لگے ہیں۔ ان لائیوز میں شامل کئی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اپنے وقار اور عزت کو داؤ پر لگا کر چند لمحاتی پیسوں کی خاطر خطرناک اور غیر قانونی حرکات میں ملوث ہو رہے ہیں۔
حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے قوانین میں ترامیم کی جا چکی ہیں، جس کے تحت فحش مواد، غیر اخلاقی حرکات، اور عوامی حساسیت کو مجروح کرنے والے مواد پر سزا اور جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو تین سال تک قید اور بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عوامی دباؤ اور بڑھتی ہوئی رپورٹس کے بعد کچھ پلیٹ فارمز نے خود بھی اپنی پالیسیوں میں سختی لائی ہے۔ بڑی تعداد میں نازیبا مواد ہٹایا جا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، اور کئی بار ایسے مواد کو روکنے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان لائیو سٹریمنگ ایپس کے استعمال کے لیے واضح حدود اور شرائط وضع کی جائیں، جن کی خلاف ورزی کی صورت میں فوری کارروائی ممکن ہو۔ تعلیمی ادارے، والدین، اور معاشرتی راہنما نوجوانوں کو یہ شعور دیں کہ آن لائن شہرت اور رقم کے چکر میں ان کا مستقبل تباہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر مبنی نگرانی کا نظام بھی وضع کیا جائے، تاکہ ایسے مواد کی بروقت شناخت اور روک تھام ممکن ہو سکے۔
مزید پڑھیں: سی سی ڈی اہلکاروں کو سوشل میڈیا سے روکنے کا مطالبہ، آئی جی پنجاب اور مریم نواز سے فوری کارروائی کی اپیل
اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ کم عمر صارفین کے لیے والدین کے کنٹرول اور آن لائن سیفٹی فیچرز کو عام اور مؤثر بنایا جائے، تاکہ نوجوان نسل کو ان پلیٹ فارمز کے نقصانات سے بچایا جا سکے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ فحاشی کا پھیلاؤ معاشرتی اقدار کو تباہ کر دے گا، اور آئندہ نسلیں ایک ایسے ڈیجیٹل کلچر کا شکار ہوں گی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی پر مبنی ہوگا۔