پیر,  21 جولائی 2025ء
بلوچستان میں کاروکاری کے نام پر دو افراد کا بہیمانہ قتل — ایک سوالیہ نشان ہمارے معاشرتی رویوں پر
بلوچستان میں کاروکاری کے نام پر دو افراد کا بہیمانہ قتل — ایک سوالیہ نشان ہمارے معاشرتی رویوں پر

کوئٹہ(روشن پاکستان نیوز) بلوچستان کے علاقے مارگٹ، سنجیدی ڈیگاری میں عیدالاضحیٰ سے تین روز قبل پیش آنے والا دل دہلا دینے والا واقعہ ایک بار پھر معاشرے کے زوال پذیر اخلاقی ڈھانچے کو عیاں کر گیا۔ بانو بی بی اور احسان اللہ کو کاروکاری کے الزام میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ اس لرزہ خیز واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی، مقدمہ درج ہوا اور متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس تھانہ ہنہ اوڑک میں درج ایف آئی آر کے مطابق بانو بی بی، جو پانچ بچوں کی ماں تھی اور پہلے بھی تین بار گھر سے فرار ہو چکی تھی، جبکہ احسان اللہ بھی شادی شدہ اور بچوں کا باپ تھا۔ دونوں کو سردار شیرباز خان کے سامنے ایک غیرقانونی جرگے میں پیش کیا گیا، جہاں اُن پر “کاروکاری” کا الزام لگا کر قتل کا حکم صادر کیا گیا۔ بعد ازاں دونوں کو مارگٹ کے مقام پر لے جا کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔

یہ واقعہ نہ صرف قانون کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی ہے۔ جرگے کے نام پر عورتوں اور مردوں کو بے دردی سے قتل کرنے کا یہ رواج آج بھی ہمارے معاشرے میں زندہ ہے، جو اسلامی اصولوں اور آئینی تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔

یہ صرف دو افراد کا قتل نہیں، انسانیت کا قتل ہے

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسے واقعات کی جڑیں کہاں ہیں؟ صرف بندوق چلانے والا مجرم نہیں، بلکہ وہ پورا معاشرہ مجرم ہے جو ایسے نظام کو فروغ دیتا ہے۔

بے شک ظلم ہوا، لیکن دوسری طرف سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر کاروکاری جیسے الزامات کو جواز بنا کر قتل کا راستہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے؟

آج سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹک ٹاک، نے معاشرے میں اخلاقی انتشار اور بے حیائی کو جس سطح پر پہنچایا ہے، وہ لمحۂ فکریہ ہے۔ لڑکیاں گھروں میں بیٹھ کر لائیو آتی ہیں، اور سستی شہرت کی خاطر حدود و قیود کو پامال کر رہی ہیں۔ غیرت اور حیا، جو کسی بھی مسلمان معاشرے کی بنیاد ہیں، ان پلیٹ فارمز کے ذریعے مسلسل زوال پذیر ہو رہی ہیں۔

معاشرے کا ہر فرد، خاص طور پر نوجوان نسل، ٹک ٹاک جیسی ایپس کے ذریعے ایک ایسی دنیا میں گم ہو چکی ہے جہاں عزت، رشتے، اور کردار کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔

سوال یہ ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

کیا اسلامی معاشرہ ایسا ہوتا ہے؟ جہاں خواتین کی شناخت ان کے کپڑوں اور حرکات سے طے کی جاتی ہے؟ جہاں جرگے انصاف کے نام پر موت کا فیصلہ سناتے ہیں؟ جہاں والدین اپنی بیٹیوں کو اعتماد دینے کے بجائے، ان پر پہرہ لگاتے ہیں؟

مزید پڑھیں: مارگٹ دوہرا قتل: جوڑا آپس میں شادی شدہ نہیں تھا، فریقین ایف آئی آر کرانے کو تیار نہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان

یہ قتل صرف غیرت کے نام پر نہیں ہوا، یہ ایک بیمار معاشرتی سوچ کا نتیجہ ہے، جہاں عزت کے نام پر خواتین کو مارنا، اور مردوں کو قتل کرنا، جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ واقعہ معاشرے کے دو چہروں کو بے نقاب کرتا ہے — ایک طرف اندھا انتقام اور روایتی غیرت، دوسری طرف سوشل میڈیا کی وہ دنیا جس نے معاشرتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

ریاست کب جاگے گی؟

اگر آج ریاست نے جرگہ کلچر، غیرت کے نام پر قتل اور سوشل میڈیا پر بڑھتی بے راہ روی کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کیے تو کل یہ آگ مزید گھروں کو جلا دے گی۔ انصاف صرف گرفتاریوں سے نہیں، بلکہ نظام کی اصلاح سے آئے گا۔

ہمیں اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کیسا معاشرہ چاہیے — قانون کے تابع یا رسم و رواج کے غلام؟
یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے، کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

مزید خبریں