تحریر: محمود قادری
دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز، فیضانِ مدینہ کراچی میں منعقد ہونے والا ہفتہ وار مدنی مذاکرہ صرف ایک روحانی نشست نہیں، بلکہ اصلاحِ معاشرہ، تربیتِ نسل اور احیاءِ علم کا ایک عظیم ذریعہ بن چکا ہے، حالیہ مدنی مذاکرے میں امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی پرمغز گفتگو نے دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ان کی گفتگو میں تعلیم، معاشرت، اخلاق، دین فہمی اور روحانی نجات کے نہایت اہم نکات سامنے آئے، جن کا خلاصہ ایک فکری مضمون کی صورت میں حاضر ہے۔
اساتذہ کا کردار: شفقت، عدل اور توازن:
امیر اہلِ سنت حضرت علامہ محمدالیاس عطار قادری نے تعلیم و تربیت کے حساس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اساتذہ کے رویئے سے متعلق کہا کہ بعض اساتذہ سخت مزاجی، غیر ضروری رعب اور مارپیٹ کے ذریعے بچوں کو ڈرا کر تعلیم دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں طلبہ علم سے بددل ہو جاتے ہیں،یہ بات باعثِ افسوس ہے کہ آج بھی کئی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ساتھ غیر مساوی سلوک روا رکھا جاتا ہے، امیر اہلِ سنت نے تعلیم کے میدان میں برابری اور انصافی رویے کو لازم قرار دیتے ہوئے کہا ہر استاد کو چاہئے کہ مالدار اور غریب، ذہین اور کمزور ہر طالب علم کے ساتھ برابری کا سلوک کرے،یہ پیغام آج کے معاشرتی نظام تعلیم کیلئے نہایت رہنما ہے، جہاں عموماً معاشی یا سماجی حیثیت کی بنیاد پر بچوں میں امتیاز برتا جاتا ہے۔
حقوق العباد اور معافی کا فلسفہ:
مدنی مذاکرے کا ایک اہم حصہ حقوق العباد اور معافی سے متعلق تھا، امیر اہلِ سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری نے واضح طور پر کہاکہ اگر کسی کا حق مارا ہو تو صرف توبہ کافی نہیں، بلکہ اس سے معافی مانگنا بھی لازم ہے، چاہے وہ دل میں معاف کر دے، زبان سے اظہار کرے یا نہ کرے،یہ بات نہایت اہم ہے کہ آج توبہ کو بعض اوقات محض زبانی معافی سمجھا جاتا ہے جبکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر توبہ مکمل نہیں ہوتی، انہوں نے والدین اور اساتذہ کی اصلاحی سختی کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے کہا جب والدین یا استاد تربیت کیلئے سختی کرتے ہیں یا قاضی وقت شرعی حکم کے تحت سزا دیتا ہے تو یہ حق تلفی میں شامل نہیں۔
علمائے کرام کی صحبت اور مطالعے کی کمی:
امیراہل سنت علامہ محمدالیاس عطار قادری نے عصرِ حاضر میں علمائے کرام کی صحبت سے دوری اور دینی کتب کے مطالعے سے بے رغبتی پر تشویش کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا کہ علمائے کرام کی صحبت اور دینی مطالعہ دین کی سمجھ کیلئے بہترین سرمایہ ہیں، مگر آج کا انسان اس عظیم نعمت سے دور ہوتا جا رہا ہے،یہ فکری نکتہ دین سے جڑنے کا ذریعہ ہے، موجودہ دور میں جب دین کی فہم سوشل میڈیا یا سطحی معلومات تک محدود ہوتی جا رہی ہے، وہاں علمائے حق کی صحبت اور مستند دینی کتب کا مطالعہ انسان کی دینی بنیادوں کو مضبوط کر سکتا ہے۔
غفلت، ایک مہلک بیماری:
مدنی مذاکرے میں ایک انتہائی اہم روحانی نکتے غفلت پر گفتگو کرتے ہوئے امیر اہل سنت نے کہا کہ غفلت کسی بھی درجے میں ہو، تباہ کن ہی ہوتی ہے، گناہوں سے توبہ میں تاخیر، نیکیوں میں سستی اور اللہ کی نافرمانی کو معمولی سمجھنا دراصل مہلک غفلت کی علامتیں ہیں،یہ کلمات آج کے انسان کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہیں، جو دنیا کی مصروفیات میں دین کو موخر کر چکا ہے، ایک چنگاری جس طرح پورے گودام کو جلا دیتی ہے، ویسے ہی ایک معمولی گناہ انسان کی نیکیوں کو جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔
دعا و پیغام:
آخر میں امیر اہلِ سنت نے دعا کی کہ اللہ ہمیں ہر طرح کی غفلت سے بچا کر اپنی رضا والے کاموں میں مشغول فرمائے،یہ پیغام اصلاح، رجوع، فکر اور عمل کا جامع پیغام ہے، اگر اس پر عمل کیا جائے تو فرد سے لے کر معاشرے تک ایک مثبت تبدیلی کا آغاز ممکن ہے،مدنی مذاکرہ فقط ایک مجلس نہیں بلکہ فکری انقلاب کی ایک روشن کرن ہے، امیر اہلِ سنت کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نہ صرف دل کو جِلا بخشتے ہیں بلکہ زندگی کو راہِ نجات دکھاتے ہیں، اگر اس پیغام کو اپنایا جائے تو نہ صرف ایک اچھا استاد، ایک نیک طالب علم، ایک منصف شہری اور ایک متقی انسان پیدا ہو سکتا ہے، بلکہ ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آ سکتا ہے۔