اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا تھا، جس کی بنیاد ہی کلمہ طیبہ اور اسلامی اقدار پر رکھی گئی تھی۔ ہمارے بانی، قائداعظم محمد علی جناح، ایک اصول پسند، سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھے جنہوں نے ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں قانون، اخلاقیات اور دین کی پاسداری ہو۔ مگر آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں اُنہی کے چہرے والے نوٹ، جنہیں ہم قومی وقار کی علامت سمجھتے ہیں، ناچ گانے کی محفلوں میں پیروں تلے روندے جا رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک ایسا افسوسناک رجحان پروان چڑھ رہا ہے جہاں شادی بیاہ، نجی محفلوں اور مختلف تقریبات میں ناچنے والی خواتین، خواجہ سرا اور بعض اوقات مرد رقاص بھی مدعو کیے جاتے ہیں، اور ان پر نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک درد مند دل رکھنے والا شخص یہی سوال کرتا ہے کہ کیا یہ وہی قوم ہے جس کے بزرگوں نے قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا؟ کیا ہم نے اس وطن کو اس لیے حاصل کیا تھا کہ اس کے قومی وقار کی یوں سر عام بے حرمتی کی جائے؟
وہ نوٹ جن پر قائداعظم کی تصویر نقش ہے، وہ کوئی معمولی کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ہماری خودمختاری، ہماری معیشت اور ہماری قومی شناخت کی علامت ہیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہم ان نوٹوں کو ناچ گانے کی محفلوں میں زمین پر اچھالتے ہیں، ان پر قدم رکھتے ہیں اور تالیاں بجا کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ محض ایک سماجی یا اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ ہمارے قومی شعور کی پستی ہے۔
کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنے کی بھی توفیق نہیں رہی کہ ہم کن روایات کو فروغ دے رہے ہیں؟ کیا یہ حرکتیں اسلامی اصولوں، تہذیبی قدروں اور حب الوطنی کے دعووں سے مطابقت رکھتی ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں بعض افراد، چاہے وہ مرد ہوں، عورتیں ہوں یا خواجہ سرا، اپنی عزت نفس کی قیمت پر تماش بینوں کے دل بہلانے کو زندگی کا مقصد بنا بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب، وہ لوگ جو ان محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور نوٹ نچھاور کرتے ہیں، وہ بھی کم ذمہ دار نہیں۔ دراصل یہ ایک اجتماعی زوال کی تصویر ہے جہاں بے حسی، لاپرواہی اور دکھاوے نے ہماری آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔
بحثیت قوم ہمیں اس رویے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کا ناچ گانا ذاتی فعل ہو سکتا ہے، کسی کا شوق بھی ہو سکتا ہے، مگر قومی وقار کی قیمت پر ایسا شوق سراسر قابل مذمت ہے۔ ہم اخلاقیات کے زوال کا شکار ہو چکے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے نظریاتی اور اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان ایک باوقار، مہذب اور اصول پسند قوم کا خواب تھا، نہ کہ وہ جہاں ان کی تصویر والے نوٹ تماش بینوں کے قدموں میں رونديں جائیں۔
مزید پڑھیں:نمرہ نامی ٹک ٹاکر کی لائیو سیشنز میں فحاشی، عوامی سطح پر شدید ردعمل
اگر ہم واقعی اپنے قائد سے محبت کرتے ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ اُن کی تصویر والے نوٹوں کا بھی اتنا ہی احترام کریں جتنا اُن کی ذات کا کرتے ہیں۔ قومی شعور، حب الوطنی، اور اسلامی اقدار کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم ایسے غیر ذمہ دارانہ اور بے حرمتی پر مبنی رویوں سے اجتناب کریں، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔