منگل,  15 جولائی 2025ء
سوشل میڈیا — جدید دور کی مزاحمتی طاقت

تحریر: مشتاق احمد بٹ

سکریٹری اطلاعات کل جماعتی حریت کانفرنس

دنیا کے ہر دور میں مزاحمت کے ذرائع بدلتے رہے، مگر مزاحمت کی روح باقی رہی۔ کبھی پتھر، کبھی قلم، کبھی کتاب، کبھی بینر، اور آج… سوشل میڈیا ۔
جدید دور میں سوشل میڈیا نہ صرف ایک اطلاعاتی ہتھیار ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی مورچہ، ایک بیداری کی لہر، اور ایک عالمی اسٹیج ہے جس پر مظلوم اپنی آواز کو ظالم کے ایوانوں تک پہنچا سکتا ہے۔

*جب بندوقوں کی گونج کو الفاظ نے چیلنج کیا
*
خاص طور پر کشمیر جیسے خطے میں، جہاں روایتی میڈیا پر پابندیاں، انٹرنیٹ کی بندش، اور اظہارِ رائے کی سلبی عام ہو، وہاں سوشل میڈیا نوجوانوں کے لیے ایک ایسی کھڑکی بن گیا ہے جہاں سے وہ دنیا کو اپنے زخم دکھا سکتے ہیں، اپنی صدائیں سنا سکتے ہیں، اور اپنی جدوجہد کا پرچم بلند رکھ سکتے ہیں۔

شہید برہان مظفر وانیؒ اسی ڈیجیٹل مزاحمت کا پہلا اور بڑا استعارہ بن کر اُبھرا۔ اس نے بندوق تو اٹھائی، مگر تصویر اور پیغام کے ذریعے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔
برہانؒ نے بندوق کی تصویر اپلوڈ کی تو دنیا نے ایک بار پھر کشمیر کی جدوجہد کو دیکھا، جانا اور محسوس کیا۔ اس کا ہر ویڈیو، ہر پوسٹ، نوجوانوں کے دلوں میں شعور، حوصلہ اور غیرت بن کر اُبھری۔

طاقت کا توازن بدلتا ہوا

روایتی طاقت ہمیشہ ہتھیار، میڈیا اور معیشت کے بل بوتے پر ظلم کو چھپانے میں کامیاب رہی ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا نے اس توازن کو چیلنج کر دیا۔ آج ایک مظلوم نوجوان کی ایک ویڈیو پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔
جب کوئی کشمیری نوجوان ٹویٹر پر اپنے علاقے میں جاری فوجی آپریشن کی ویڈیو پوسٹ کرتا ہے، یا جب کوئی ماں اپنے شہید بیٹے کی تصویر کے ساتھ انصاف کی اپیل کرتی ہے، تو یہ پوسٹس صرف الفاظ نہیں ہوتیں — یہ عصرِ حاضر کے گواہ اور مظلوم کی پکار ہوتی ہیں۔

بیانیے کی جنگ — اور سوشل میڈیا کی فتح

بھارت نے ہمیشہ اپنی طاقتور میڈیا مشینری کے ذریعے کشمیر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، مگر سوشل میڈیا نے ان جھوٹے بیانیوں کو چیلنج کیا۔
ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب پر کشمیری نوجوانوں نے اپنے اصل چہرے، اصل کہانیاں، اصل جدوجہد کو دنیا کے سامنے رکھا۔
اور یہ سچ، یہ تصویریں، یہ صدائیں، دنیا کے کانوں، آنکھوں، اور دلوں تک پہنچنے لگیں۔

جب قابض بھی گھبرایا

سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بار بار انٹرنیٹ بند کیا، سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائیں، اور یہاں تک کہ بعض نوجوانوں کو صرف پوسٹ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا۔
یہ سب اعتراف ہے اس حقیقت کا کہ آج سچائی کی سب سے بڑی دشمنی جھوٹے بیانیے والوں کو سوشل میڈیا سے ہے۔

پیغام نوجوانوں کے لیے

آج کا کشمیری نوجوان صرف میدان میں نہیں، آن لائن بھی مزاحمتی سپاہی ہے۔
اگر برہان وانیؒ نے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے پوری ایک نسل کو بیدار کیا، تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سچائی، نظریہ، اور حوصلے کے ساتھ سوشل میڈیا کو جدوجہد کا ایک منظم ہتھیار بنائیں۔
ہمارے الفاظ، تصاویر، ویڈیوز، اور پوسٹس صرف ڈیجیٹل مواد نہیں بلکہ مزاحمت کا حصہ ہیں۔
سوشل میڈیا ایک میدانِ جنگ ہے — ایک ایسا مورچہ جہاں بندوق کی جگہ بیانیہ لڑتا ہے، اور سچ بولنے والا سپاہی ہوتا ہے۔
آج ہمیں برہان وانیؒ کی ڈیجیٹل وراثت کو آگے بڑھانا ہے، اور یہ ثابت کرنا ہے کہ:
” ہماری آوازیں، ہماری تحریریں، اور ہمارے الفاظ — ظلم کی دیواروں کو ہلا سکتے ہیں،،

مزید خبریں