تحریر۔علامہ محمد حیدر علوی
فاضل دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف
جن کا نسبی شجرہ شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی علیہ الرحمة سے ملتا ہے جبکہ روحانیت اور طریقت میں آپ سلطان الہند عطاء رسول خواجہ خواجگان سید معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمة کے مبارک سلسلہ سے وابسطہ تھے جن کے بانی سرچشمہ ولایت و ہدایت مولا علی علیہ السلام کی ذات مبارک ہے
وہ جو ساری زندگی امت کو عشق رسول کے جام پلاتا رہا۔
ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ایک عظیم صوفی و روحانی بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مفسر، سیرت نگار، ماہر تعلیم، صحافی، صاحب طرز ادیب اور دیگر بیشمار خوبیوں کے مالک تھے۔ تفسیرضیاء القرآن، سیرت طیبہ کے موضوع پر ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1971ء سے مسلسل اشاعت پزیر ماہنامہ ضیائے حرم لاہور، منکرین حدیث کے جملہ اعتراضات کے مدلل علمی جوابات پر مبنی حدیث شریف کی اہمیت نیز اس کی فنی، آئینی اور تشریعی حیثیت کے موضوع پر شاہکار کتاب سنت خیر الانام، فقہی، تاریخی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر اہم موضوعات پر متعدد مقالات و شذرات آپ کی علمی، روحانی اور ملی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی اس کی شاخوں کی صورت میں بر صغیر کی بے نظیر علمی تحریک اور معیاری دینی کتب کی اشاعت و ترویج کا عظیم اشاعتی ادارہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز ان کے علاوہ ہیں۔
آپ کی پیدائش 21 رمضان المبارک 1336ھ بمطابق یکم جولائی 1918ء سوموار کی شب بعد نماز تراویح بھیرہ،ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر محمد شاہ ہاشمی تھے۔
جن اساتذہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں۔
حافظ دوست محمد صاحب حافظ مغل صاحب حافظ بیگ صاحب
محمدیہ غوثیہ پرائمری اسکول کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ آپ اس اسکول کے پہلے طالب علم ہیں۔ اس لحاظ سے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آ غاز کیا پہلے استاد کا نام ماسٹر برخوردار تھا جو محمدیہ غوثیہ اسکول میں ہیڈ ماسڑ تھے۔ پرائمری اسکول میں اس وقت چار کلاسز ہوتی تھی اس لحاظ سے اس اسکول میں آپکی تعلیم کا سلسلہ 1925ء سے 1929ء تک رہا اس کے بعد آپ نے 1936ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہائی اسکول میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: چوہدری ظفر احمد چوہدری جہاں داد فرمان شاہ قاضی محمد صدیق شیخ خورشید احمد
حضور ضیاءالامت نے مولانا محمد قاسم بالا کوٹی سےفارسی کتب کریما، پندنامہ، مصدر فیوض، نام حق پڑھیں اور صرف و نحو اور کافیہ بھی پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا عبد الحمید صاحب سے الفیہ، شرح جامی، منطق کے رسائل، قطبی، میر قطبی، مبزی، ملا حسن اور سنجانی جیسی کتابیں پڑھیں۔ دیگر کئی علما سے بھی آپ نے علم دین کی بعض دوسری مشہور و معروف کتابیں پڑھیں۔ فلسفہ و منطق کی فنی کتابیں مولانا محمد دین موضع بدھو ضلع اٹک سے پڑھیں مولانا غلام محمد پپلاں میانوالی سے ادب ،فقہ اور ریاضی پڑھی
1941ء میں اوریئنٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور فاضل عربی میں شیخ محمد عربی، جناب رسول خان صاحب، مولانا نورالحق جیسے اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ آپ نے 600 میں سے 512 نمبر لیکر پنجاب بھر میں پہلی پوزیش لیکر فاضل عربی کا امتحان پاس کیا۔
علوم عقلیہ و نقلیہ سے فراغت کے بعد دورہ حدیث شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی، سیال شریف کے حکم پر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مرادآبادی سے 1942ء سے 1943ء تک مکمل کیا اور بعض دیگر کتب بھی پڑھیں۔
1945ء میں جامعہ پنجاب سے بی اے کا امتحان اچھے مقام سے کامیاب کیا۔
ستمبر 1951ء میں جامعہ الازہر مصر میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ جامعہ قاہرہ سے ایم-اے کیا۔ جامعہ الازہر سے ایم-فِل نمایاں پوزیشن سے کیا۔ یہاں آپ نے تقریباً ساڑھے تین سال کا عرصہ گزارا۔
دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی نشاۃ ثانیہ: مصر سے واپس تشریف لا کر آپ نے دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی نشاۃ ثانیہ فرمائی اس کا نصاب ترتیب دیا اور علوم قدیمہ و جدیدہ کا حسین امتزاج آپ نے امت کو فراہم کیا اس وقت دار العلوم محمدیہ غوثیہ کی شاخیں پاکستان، برطانیہ، یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اس ادارہ کے فارغ التحصیل علما بھی پوری دنیا میں دین اسلام کے اجالے پھیلا رہے ہیں۔
1981ء میں 63 سال کی عمر میں آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج مقرر ہوئے اور 16 سال تک اس فرض کی پاسداری کرتے رہے۔ آپ نے متعدد تاریخی فیصلے کیے جو عدالتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
آپ کی مشہور زمانہ تصانیف۔
ضیاء القرآن۔۔۔3500 صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر آپ نے 19 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کی۔
جمال القرآن۔۔۔۔ قرآن کریم کا خوبصورت محاوراتی اردو ترجمہ جسے انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
ضیاء النبی۔۔۔۔ 7 جلدوں پر مشتمل عشق و محبتِ رسول سے بھرپور سیرت کی یہ کتاب عوام و خواص میں انتہائی مقبول ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی تکمیل پزیر ہے۔
سنت خیر الانام۔۔۔ اس کا موضوع سنت اور حدیث کی اہمیت اور حجیت ہے اور یہ آپ کی پہلی کاوش ہے جو آپ نے جامعہ الازہر میں دورانِ تعلیم تالیف کی اور یہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔
1971ء میں آپ نے ماہنامہ ضیائے حرم کا اجرا کیا جو تاحال مسلسل شائع ہو رہا ہے۔
جون 1974ء میں لاہور میں ضیاء القرآن پبلیکیشنز کا قیام عمل میں آیا جو اسلامی مواد کو دنیا بھر میں پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے 1980ء میں آپ کی علمی و اسلامی خدمات کے اعتراف میں اعزاز سے نوازا۔
نت الامتیاز۔مصر کے صدر حسنی مبارک نے 6 مارچ 1993ء میں دنیائے اسلام کی خدمات کے صلے میں دیا۔
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر نے 1994ء میں سیرت کے حوالے سے آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف یہ میں اعزاز دیا۔
الدائرہ الفخری۔۔ڈاکٹر احمد عمر ہاشم نے جامعہ الازہر کا یہ سب سے بڑا اعزاز آپ کو دیا
10 ذوالحجہ 1418ھ بمطابق 7 اپریل 1998ء بروز منگل رات طویل علالت کے بعد آپ کا وصال ہوا۔ سجا دہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف خواجہ محمد حمید الدین سیالوی علیہ الرحمة نے نماز جنازہ کی امامت کرائی، آپ کی تربت مبارک وصیت کے مطابق دربار عالیہ امیر السالکین میں آپ کے دادا جان پیر امیر شاہ کے بائیں جانب آخری آر گاہ بنائ گئ
آپ کا مزار اقدس یر خاص و عام کےلیے مرکز فیوض و برکات ہے آپ کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 18.19.20 محرم الحرام شریف سرزمین علم و عرفان بھیرہ شریف سرگودھا میں منعقد ہوتا ہے جس میں غیر شرعی امور کی بجاے قرآن و سنت کے بیان کے ساتھ ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کا اہتما م کیا جاتا ہے اس میں ملک بھر سے علماء و مشائخ دانشور سیاسی سماجی اور عدالتی شخصیات سمیت کثیر تعداد میں اہل اسلام شرکت کرتے ہیں
جبکہ آخر میں حضور دیوان کریم مجاہدتحریک ختم نبوت پیر امین الحسنات شاہ صاحب تمام عالم اسلام اور پاکستان کےلیے خصوصی دعا فرماتے ہیں