عموماً ہم پاکستانی سرکاری اداروں میں کام کے نظام اور عمل پر تنقید کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ مگر آج میرا تجربہ نیشنل بینک آف پاکستان، ایف-6/1 اسلام آباد برانچ میں بالکل مختلف رہا — ایک ایسا تجربہ جس نے دل خوش کر دیا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں ایک پے آرڈر بنوانے کے لیے بینک پہنچا۔ میری گھڑی پر 4:29 کا وقت تھا جبکہ بینک کے اندر سیکیورٹی گارڈ کی گھڑی پر 4:31 — بینک کا کلوزنگ ٹائم 4:30 ہے۔ شٹر بند ہونے ہی والا تھا کہ میں نے ذرا مذاقیہ انداز میں سیکیورٹی گارڈ سے کہا: “نہیں باس! آج ایک منٹ پہلے چھٹی نہیں ملے گی، دکان کھولیں!”
خوش قسمتی سے سیکیورٹی گارڈ نے خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: “ویسے تو ٹائم ختم ہو چکا ہے، لیکن آ جائیں سر!”
بینک میں داخل ہوا تو وہاں دو کسٹمرز موجود تھے جن کا کام جلدی نمٹا لیا گیا۔ جب میں نے بتایا کہ مجھے پے آرڈر بنوانا ہے تو دونوں کیشیئر حضرات نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا — جیسے کوئی مشکل کام سر پر آ پڑا ہو۔ میں چونکہ پہلی بار پے آرڈر بنوانے آیا تھا، اس لیے مکمل طریقہ کار معلوم نہ تھا۔
انہوں نے پوچھا: “یہ آج کی تاریخ کا چاہیے یا سوموار کے دن کا بنا دیں؟ کیونکہ کلوزنگ کا وقت ہو چکا ہے اور اس میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔” میں نے کہا: “اگر آج ہو جائے تو بہتر ہوگا، لیکن آپ کی سہولت کے مطابق۔”
اس پر انھوں نے مسکرا کر کہا: “کر دیتے ہیں بھائی، کیا یاد کریں گے! ہم سرکار کا کام ہی عوام کی خدمت کے لیے کرتے ہیں۔”
مجھے ایک فارم دیا گیا، جس پر صرف تاریخ بھر سکا۔ باقی سارا فارم وہ بھائی خود ہی بھرنے لگے۔ مذاق میں کہنے لگے: “یہ فارم 45 کی طرح لگ رہا ہے، چلو ہم اسے فارم 47 میں کنورٹ کرتے ہیں!”
اسی دوران بجلی چلی گئی اور سسٹم بند ہو گیا۔ وہ دونوں حضرات پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، مگر جیسے ہی سسٹم واپس آن ہوا، فوراً کام شروع کر دیا۔ درمیان میں پے آرڈر پر ٹیکس کی ایک تکنیکی رکاوٹ آئی، تو پورا عمل دوبارہ شروع کیا گیا۔
اب شام کے 5 بج چکے تھے، کچھ عملہ جا چکا تھا۔ مگر کیشیئر بھائی نے پھر سے فارم فل کیا، رجسٹرز پر لکھا، سسٹم اپڈیٹ کیا، اور کہا: “سر دیر تو ہو رہی ہے، لیکن آپ کا کام مکمل کر کے ہی اٹھیں گے۔”
میں نے کافی پینے کی اجازت لی، وہ خوش دلی سے مان گئے۔ واپسی پر کام آخری مراحل میں تھا۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ مینجر صاحب سے دستخط کروا لیں، جو کہ اوپر کی منزل پر تھے۔ میں گیا، سائن کروائے اور واپس آیا۔
جب رسید میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے کہا: “سر، واقعی آپ کا بہت شکریہ۔”
انھوں نے مسکرا کر کہا: “ہمیں تو ابھی کلوزنگ بھی کرنی ہے، آپ کا کام مکمل ہو گیا — یہی اصل اطمینان ہے۔”
جاتے ہوئے سیکیورٹی گارڈ سے بھی شکریہ ادا کیا، جس نے مسکرا کر کہا:
“سر آپ کا وہ آخری منٹ ہمیں بڑا لمبا پڑھ گیا… لیکن خوشی ہے کہ آپ کا کام ہو گیا۔”