سوات(روشن پاکستان نیوز) خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی پر ایک بار پھر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جب سوات میں پیش آنے والے المناک واقعے میں ہیلی کاپٹر کے بروقت استعمال نہ ہونے کے باعث قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ حالیہ رپورٹس اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے مطابق، باجوڑ دھماکے میں شہید ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر فیصل اسماعیل کے گھر تعزیت کے لیے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف اور چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سوات پہنچے، جب کہ سوات کے افسوسناک واقعے میں ہیلی کاپٹر بروقت مہیا نہ ہونے پر اٹھارہ افراد جان کی بازی ہار گئے۔
یہ تضاد حکومت کی ترجیحات پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔ اگر ایک جانب تعزیت کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر فوری دستیاب ہو سکتا ہے، تو دوسری جانب انسانی جانوں کے بچاؤ کے لیے اس کی دستیابی نہ ہونا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ حکومت خیبرپختونخوا کے متعدد نمائندے اور ترجمان ماضی میں دعویٰ کر چکے ہیں کہ ہیلی کاپٹر کو ذاتی یا غیر ضروری استعمال میں نہیں لایا جاتا، لیکن حالیہ واقعات ان دعوؤں کی قلعی کھول رہے ہیں۔
ریسکیو اور ایمرجنسی سروسز کے حوالے سے صوبے میں پہلے ہی سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ حکومتی مشینری صرف خواص کے لیے متحرک ہوتی ہے، جب کہ عام شہریوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے نہ تو وسائل مختص کیے جاتے ہیں اور نہ ہی بروقت اقدام کیا جاتا ہے۔ سوات واقعہ اس المیہ کا واضح ثبوت ہے، جہاں وقت پر ریسکیو آپریشن نہ ہونے سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، اور یہ نقصان صرف “افسوس” تک محدود کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں: سانحہ سوات روکا جا سکتا تھا، مگر نااہلی نے جانیں لے لیں،سابقہ ایم پی اے آمنہ خانم
حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف دعوؤں پر اکتفا نہ کرے بلکہ فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے استعمال، ایمرجنسی پروٹوکولز، اور عوامی خدمت سے متعلق پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ مزید یہ کہ ایک شفاف انکوائری کی جائے کہ سوات واقعے میں ریسکیو آپریشن کیوں تاخیر کا شکار ہوا اور ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، اور اگر یہ ذمہ داری پوری نہ کی جا سکے تو حکومتی دعوے محض الفاظ کی حد تک رہ جاتے ہیں۔