جمعرات,  03 جولائی 2025ء
جناح انسٹیٹیوٹ کا نام مریم نواز سے منسوب کرنے پر شدید عوامی ردعمل اور سیاسی تنازعے پر روشن پاکستان نیوز کا تفصیلی رپورٹ!
جناح انسٹیٹیوٹ کا نام مریم نواز سے منسوب کرنے پر شدید عوامی ردعمل اور سیاسی تنازعے پر روشن پاکستان نیوز کا تفصیلی رپورٹ!

 ;لاہور(روشن پاکستان نیوز) پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مریم نواز کے حوالے سے حالیہ اقدام، جس میں جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کر کے “مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز” رکھنے کا فیصلہ شامل تھا، شدید عوامی تنقید اور مخالفت کی زد میں آگیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن جیسے ہی منظر عام پر آیا، سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ عوام نے اسے قائداعظم محمد علی جناح کی توہین قرار دیا اور اسے سیاسی خود پرستی اور ذاتی تشہیر کا عمل قرار دیا۔ ٹویٹر، ریڈٹ، اور دیگر پلیٹ فارمز پر لوگوں نے کہا کہ یہ عمل نہ صرف بے حسی کی علامت ہے بلکہ عوامی فنڈز پر ذاتی سیاست چمکانے کی کوشش بھی ہے۔

ایک صارف نے ٹویٹر پر لکھا: “جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام مریم نواز انسٹیٹیوٹ رکھنا صرف توہین آمیز ہی نہیں بلکہ حقیقت سے انکار ہے… خود پرستی کی شرمناک حد ہے۔” ایک اور صارف نے لکھا: “کسی سیاستدان کے نام پر کسی عوامی منصوبے کا نام نہیں ہونا چاہیے… یہ مریم نواز کے نام سے منصوبہ بنانا سراسر بے ادبی ہے۔” کچھ صارفین نے یہاں تک مطالبہ کیا کہ اگر کسی کا نام لگانا ہی ہے تو وہ شخص اپنے ذاتی پیسوں سے ادارہ تعمیر کرے۔ ایک ریڈڈیٹر نے تبصرہ کیا کہ “ایسا اقدام، چاہے کوئی اچھا کام بھی کرے، اس کی ساکھ پر داغ لگا دیتا ہے۔”

علاقائی اخبار “ڈی نیکسٹ” اور دیگر معتبر ذرائع نے اطلاع دی کہ حکومت نے اس فیصلے سے بیک ڈور طریقے سے رجوع کرلیا ہے، کیونکہ عوامی دباؤ بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے یہ وضاحت دی کہ “اس ادارے کے نام کی کوئی تبدیلی زیر غور نہیں ہے” اور بجٹ دستاویزات میں ابھی تک اس کا پرانا نام ہی درج ہے۔ اس تضاد نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ سب کچھ صرف وقتی سیاسی فائدے کے لیے کیا گیا یا اس کے پیچھے کوئی دیرپا منصوبہ بندی ہے۔

یہ مسئلہ محض ایک ادارے کے نام کی تبدیلی تک محدود نہیں بلکہ اس سے مسلم لیگ (ن) کی حکومتی پالیسیوں، فیصلہ سازی میں شفافیت، اور بیوروکریسی پر سیاسی دباؤ جیسے وسیع تر مسائل بھی اجاگر ہوئے ہیں۔ کئی ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا انتظامی افسر اس قسم کے سیاسی اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو کیا وہ سرکاری انتقامی کارروائی کا شکار ہوگا؟ ایک واقعے میں ڈاکٹر شہریار نیازی نے جب اس تبدیلی پر اعتراض کیا تو ان کے خلاف مبینہ طور پر سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے ایک طرف قومی سطح پر تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف ادارہ جاتی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔ عوامی سطح پر بھی یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ حکمران جماعتیں ذاتی برانڈنگ کو ترجیح دیتی ہیں، بجائے اس کے کہ وہ اداروں کو خودمختار، غیر سیاسی اور عوام دوست بنائیں۔ وزیر صحت اور سینئر وزیر کے بیانات میں تضاد بھی عوامی بداعتمادی کا سبب بنا۔ جہاں ایک جانب اسے آزاد ادارہ قرار دیا گیا، وہیں دوسری طرف اس کی تردید بھی کی گئی، جس سے شفافیت پر سوالات اٹھے۔

مزید پڑھیں: شیفالی جریوالا کی موت کی خبروں پر معروف عالم دین مفتی طارق مسعود کا ردعمل بھی سامنے آ گیا

مجموعی طور پر یہ صورتحال حکومتی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔ عوامی سطح پر شدید غصہ، سیاسی خود پسندی پر تنقید، اور شفافیت کی کمی اس سارے معاملے کو ایک علامتی بحران میں بدل چکے ہیں۔ یہ صرف ایک نام کی تبدیلی کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے جڑی ہوئی سیاسی نیتوں، حکومتی ترجیحات اور عوامی جذبات کی نفی کا مسئلہ بن چکا ہے۔

قومی نوعیت کے اداروں کے نام تبدیل کرنے سے پہلے مکمل عوامی مشاورت، قانونی و عدالتی جائزہ اور تاریخی تناظر کا احترام نہایت ضروری ہے۔ عوامی وسائل سے بننے والے ادارے کسی ذاتی یا سیاسی تشہیر کا ذریعہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر حکومتیں واقعی عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سیاست کو اداروں سے دور رکھ کر شفافیت، میرٹ اور کارکردگی کو اولیت دینی ہوگی۔ یہ رپورٹ اسی عوامی اور میڈیا ردعمل کی عکاسی ہے جو ایک بظاہر چھوٹے مگر علامتی مسئلے پر ابھرا، اور جس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عوام اب باشعور ہیں اور ہر فیصلے پر سوال اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مزید خبریں