اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) آج کے دور میں میڈیا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جو عوام کی سوچ، رائے اور طرزِ زندگی پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور کی رپورٹنگ کا معیار روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ سنجیدہ صحافت کی جگہ اب سنسنی خیزی، غیر سنجیدہ سوالات اور غیر اخلاقی موضوعات نے لے لی ہے۔ رپورٹنگ اب عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ایسی باتوں پر مرکوز ہو چکی ہے جو نہ صرف غیر اہم ہیں بلکہ اخلاقی گراوٹ کا باعث بھی بنتی ہیں۔
سوشل میڈیا نے ہر فرد کو ایک ‘اینکر’ یا ‘صحافی’ بننے کا موقع دے دیا ہے، لیکن ان میں سے اکثریت کو صحافت کے بنیادی اصولوں، تحقیق، ذمہ داری اور اخلاقیات کا علم تک نہیں۔ محض شہرت کے حصول کے لیے لوگوں کی نجی زندگیوں میں دخل دینا، بے ہودہ سوالات پوچھنا، اور ایسے مواد کو فروغ دینا جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے، معمول بن چکا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قومی میڈیا ادارے بھی ایسے افراد اور پروگراموں کو پروموٹ کر رہے ہیں جن کا مقصد صرف ریٹنگ حاصل کرنا ہے، نہ کہ قوم کی رہنمائی یا شعور کی بیداری۔
ایسے رجحانات نوجوان نسل کو اسلامی طرزِ زندگی سے دور کر کے محض دولت، شہرت اور لذتِ نفس کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ میڈیا کا کردار اب اصلاحی نہیں بلکہ تفریحی ہو چکا ہے، اور اس تفریح کے نام پر فحاشی، بے راہ روی اور تہذیبی زوال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایسے پروگرام جو صرف وقتی مزاح یا شہرت کی خاطر بنائے جاتے ہیں، دراصل معاشرتی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں اور نئی نسل کو بے مقصدیت اور اخلاقی گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: جارج گیلوے کا غزہ جنگ پر جانبدرانہ رپورٹنگ کرنے والےمیڈیاہاؤسزاورصحافیوں کو انتباہ
آج میڈیا کو ایک بار پھر اپنی اصل ذمہ داری کی طرف لوٹنے کی اشد ضرورت ہے۔ صحافت کا کام صرف خبر دینا نہیں بلکہ سچ کی تلاش، اصلاحِ معاشرہ، اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنا بھی ہے۔ جب تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود صحافی اور اینکر حضرات اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کریں گے، تب تک ہم ایک مہذب، باشعور اور بااخلاق معاشرہ تشکیل نہیں دے سکتے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ میڈیا کو ریٹنگ سے زیادہ ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور نوجوانوں کو ایسی رہنمائی دی جائے جو انہیں نہ صرف ایک اچھا شہری بنائے بلکہ ایک باکردار اور بااخلاق انسان بھی۔