اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) حال ہی میں خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام سوات میں پیش آنے والے دل خراش سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واقعے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں پورے پورے خاندان مٹ گئے۔ عوام کا غم و غصہ صرف قدرتی آفت پر نہیں بلکہ اس کے بعد سامنے آنے والی حکومتی نااہلی، بے حسی، اور ریسکیو مشینری کی غیر موجودگی پر ہے۔
سوشل میڈیا پر عوام نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک طرف جہاں اس سانحے کو اللہ کی طرف سے آزمائش کہا جا رہا ہے، وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر حکومت ذمہ داری سے کام کرتی تو اس قسم کے واقعات کو روکا جا سکتا تھا۔ عوامی رائے میں بار بار اس بات کا ذکر ہوا کہ دریا کے کنارے واقع ہوٹلز کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے لائف جیکٹس، مضبوط رسیاں، کشتیاں اور دیگر ریسکیو سہولیات رکھیں۔ لیکن حکومتی ادارے، خاص طور پر خیبرپختونخوا کی مشینری، ایسی کسی تیاری سے مکمل طور پر خالی نظر آئی۔
عوامی ردعمل میں اس بات پر بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ یہ ریسکیو مشینری صرف دھرنوں، جلسوں، اور سیاسی مفادات کے لیے بروقت متحرک ہوتی ہے، مگر جب عوام کی زندگیاں خطرے میں ہوں تو کہیں نظر نہیں آتی۔ بعض صارفین نے کہا کہ جب اسلام آباد اور لاہور میں جلسے ہوتے ہیں تو خیبرپختونخوا کی سرکاری مشینری فوراً وہاں پہنچ جاتی ہے، لیکن سوات میں انسانی جانیں بچانے کے لیے کوئی نہیں آیا۔
ایک صارف نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس خاندان کے تمام افراد اس حادثے میں جان سے گئے، ان کی لاشوں کو ایمبولینس میں نہیں بلکہ کچرا اٹھانے والے ڈمپرز میں منتقل کیا گیا، جو کہ سراسر غیر انسانی سلوک ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے بعد میں ایمبولینس فراہم کی گئی، جو کہ خیبرپختونخوا حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مزید پڑھیں: محمد ہلال: سوات کا خاموش ہیرو، جس نے دریا کے سیلاب میں جانیں بچا کر انسانیت کی مثال قائم کی
سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر عوام نے ملک گیر سطح پر حکومتوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے وہ خیبرپختونخوا ہو، سندھ ہو یا وفاق، ہر طرف کرپشن، بے حسی اور نااہلی کا راج ہے۔ کسی نے کہا کہ تحریکِ انصاف کا خاتمہ ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ فتنے کا خاتمہ تھا، جس نے معاشرے میں گالی گلوچ، نفرت اور انتشار کو فروغ دیا۔ تو کسی نے عمران خان کے حق میں نعرہ بلند کیا کہ وہی واحد امید ہیں۔
اس سانحے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی جانوں کی کیا قدر ہے؟ کیا صرف قدرتی آفات کا الزام لگا کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو سکتی ہے؟ عوام کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں، اور نہ صرف ذمہ داران کو سزا دی جائے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے۔
سانحۂ سوات نے ہمارے نظام کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے، اور عوام کے دلوں میں ایک نیا زخم چھوڑ دیا ہے جو صرف انصاف سے ہی بھر سکتا ہے۔