دریائے سوات سانحہ: خیبرپختونخوا حکومت اور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت بے نقاب

سوات(روشن پاکستان نیوز) دریائے سوات میں 27 جون 2025 کو پیش آنے والا افسوسناک حادثہ ایک المناک سانحہ ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا کھلا ثبوت ہے۔ شدید بارشوں کے بعد دریائے سوات میں آنے والے سیلابی ریلے نے درجنوں افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جن میں سے کم از کم 10 افراد کی لاشیں نکالی گئیں، 55 سے زائد کو ریسکیو کیا گیا، جبکہ 20 سے زائد اب بھی لاپتہ ہیں۔ مقامی افراد نے بارہا نشاندہی کی کہ ریسکیو ٹیمیں گھنٹوں تاخیر سے پہنچیں، اور کئی خاندان امداد کے بغیر پانی میں بہہ گئے۔

ایک ہی خاندان کے 15 افراد کی اجتماعی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ کوئی ہیلکاپٹر بروقت فراہم کیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کا فوری امدادی اقدام کیا گیا۔ جب جائے حادثہ پر موجود افراد نے دیوانہ وار مدد کی اپیلیں کیں، انتظامیہ غائب نظر آئی۔ جب صحافیوں اور مقامی میڈیا نے سوات کی صورتحال کو اجاگر کیا تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے محض چند افسران کی معطلی کے احکامات جاری کر دیے۔ یہ اقدام ذمہ داری سے فرار اور عوامی غصے کو وقتی طور پر دبانے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

ریاستی اداروں کی ناکامی اس وقت مزید بے نقاب ہوئی جب سامنے آیا کہ اس علاقے میں سیاحتی سہولیات کے نام پر برسوں سے دریا کے کنارے غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔ متعدد رپورٹس اور ماحولیاتی وارننگز جاری ہونے کے باوجود متعلقہ اداروں نے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیے۔ ہر سال سیلابی خطرات کی پیش گوئی کے باوجود ریسکیو نظام کو مضبوط بنانے یا خطرناک تعمیرات پر پابندی عائد کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔

ایم پی اے ناصر عبادت اور خالد مسعود سندھو جیسے مقامی نمائندوں نے اس حادثے کو حکومتی مجرمانہ غفلت اور ریاستی نااہلی قرار دیا ہے۔ یہ حادثہ ایک قدرتی آفت ضرور تھا، مگر اس کے نقصانات کا دائرہ صرف اور صرف حکومتی کوتاہیوں اور غیر سنجیدہ انتظامی رویوں کی وجہ سے اتنا وسیع ہوا۔ اگر پیشگی وارننگز کو سنجیدگی سے لیا جاتا، اگر ریسکیو سسٹم فعال ہوتا اور اگر مقامی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرتی، تو اتنی بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔

مزید پڑھیں: نائیجیریا میں سیلاب سے تباہی ، 151 افراد ہلاک ، ہزاروں بے گھر

اب وقت ہے کہ اس سانحے پر محض بیانات یا علامتی معطلیوں کے بجائے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ ریسکیو نظام کی ازسرنو تشکیل، خطرناک علاقوں میں تعمیرات پر پابندی، اور عوامی سطح پر شفاف انکوائری ناگزیر ہو چکی ہے۔ بصورت دیگر، آئندہ بھی خیبرپختونخوا کے شہری انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہوتے رہیں گے، اور ہر سیلاب ایک نیا سانحہ بن کر ابھرتا رہے گا۔

مزید خبریں