سوشل میڈیا کا زہر: بچوں کی معصومیت اور دینی تربیت پر خطرناک حملہ
سوشل میڈیا کا زہر: بچوں کی معصومیت اور دینی تربیت پر خطرناک حملہ

اسلا آباد(روشن پاکستان نیوز) آج کے جدید دور میں بچوں کی معصومیت اور فطری ذہانت ایک خطرناک دھارے کی طرف بہہ رہی ہے، جو کہ سوشل میڈیا کی شکل میں ہمارے گھروں کے اندر داخل ہو چکی ہے۔ وہ بچے جو قرآن و سنت کو سیکھنے، دینی تعلیمات کو سمجھنے اور ایک صالح انسان بننے کے مرحلے پر ہوتے ہیں، آج ان کے ہاتھوں میں موبائل فون تھما دیے گئے ہیں۔ یہ نازک عمر، جو تربیت، توجہ، محبت اور رہنمائی کی طلبگار ہوتی ہے، اسے اسکرینز کی چمک، لایعنی مواد اور وقت ضائع کرنے والے رجحانات کی نظر کر دیا گیا ہے۔

بدقسمتی سے والدین نے سہولت یا لاپروائی کی بنیاد پر بچوں کو اس اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ والدین جب خود اپنی مصروفیات میں الجھ جاتے ہیں، تو وہ بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے موبائل فون یا ٹیبلٹ تھما دیتے ہیں، اس نیت سے کہ بچہ شور نہ کرے، ضد نہ کرے، اور وہ اپنے کام انجام دے سکیں۔ مگر یہ وقتی حل ایک گہرا نقصان چھوڑ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ بچے کے اخلاق، سوچ، تربیت اور شخصیت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر جو مواد موجود ہے وہ ایک بالغ شخص کے لیے بھی مضر ہو سکتا ہے، تو ایک کم عمر، ناسمجھ بچے کے لیے یہ زہر سے کم نہیں۔ انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی ویڈیوز، تشدد، بے مقصد تفریح، اور فحاشی پر مبنی مواد بچوں کے ذہن پر نہ صرف اثر ڈالتا ہے بلکہ ان کی معصوم فطرت کو مسخ کر دیتا ہے۔ جب بچوں کو وقت سے پہلے وہ چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کے بارے میں انہیں کچھ معلوم ہی نہیں، تو وہ ان معلومات کو بغیر سمجھے اپنے رویے کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں تربیت کا دروازہ بند ہوتا ہے اور بے راہ روی کا آغاز ہو جاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بچے جو پانچ، چھ سال کی عمر میں قرآن کا پہلا کلمہ یاد کرتے تھے، وہ اب موبائل فون پر یوٹیوب اور گیمز کے دیوانے بن چکے ہیں۔ نماز، قرآن، اخلاقیات اور ادب ان کی دلچسپی کے دائرے سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جو لوگ بچوں کے قریب ہوتے ہیں، ان کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ والدین، دادا دادی، نانا نانی، اساتذہ اور بڑے بہن بھائیوں کو نہ صرف نگرانی کرنی چاہیے بلکہ بچوں کے ساتھ وقت گزار کر انہیں صحیح اور غلط کی پہچان بھی دلانی چاہیے۔

ہمیں سوشل میڈیا کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس کے استعمال کا طریقہ بدلنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی ایک نعمت ہے اگر اسے مثبت انداز میں استعمال کیا جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے لیے تعلیمی، دینی اور اخلاقی مواد پر مشتمل ایپس، یوٹیوب چینلز اور پروگرامز متعارف کرائیں۔ بچوں کو قرآن کی کہانیاں، سیرت النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعتیں، اور اخلاقی سبق دینے والے کارٹون دکھائیں، مگر ایک محدود وقت کے لیے۔

بچوں کو موبائل سے مکمل طور پر محروم کرنا ممکن نہیں لیکن ان کے ساتھ بیٹھ کر، انہیں سکھا کر، ان پر اعتماد کر کے، اور نرمی سے رہنمائی کر کے بہت کچھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ والدین کو خود سوشل میڈیا پر اعتدال برتنا ہوگا تاکہ ان کے بچے بھی انہی کی پیروی کریں۔ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں، اور اگر وہ اپنے گھر میں قرآن پڑھتے ماں باپ کو دیکھیں گے، نرمی سے بات کرنے والے بڑوں کو دیکھیں گے، اور خاندانی روایات کی پاسداری کو محسوس کریں گے تو وہ اسی راہ پر چلیں گے۔

مزید پڑھیں: ہنڈا 125: پاکستان کے نوجوانوں کی ہر دلعزیز سواری، سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے جاری

یہ وقت سوچنے، جاگنے اور سنجیدہ قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر ہم نے بچوں کو ان کے اصل مقام یعنی دین، علم، ادب اور اخلاق کی طرف واپس نہ پلٹایا تو سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا یہ سیلاب ہماری نئی نسل کو بہا لے جائے گا۔ یہ بچے ہمارا سرمایہ ہیں، ہمارا کل ہیں، اور ان کی اصلاح آج کی سب سے بڑی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان معصوم ذہنوں کو سوشل میڈیا کے زہر سے بچا کر دین اسلام کی روشنی سے منور کریں، تاکہ ایک روشن، بااخلاق اور باعلم نسل پروان چڑھ سکے۔

مزید خبریں