اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران مخالف دھماکہ خیز بیانات نے عالمی سطح پر ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ ٹرمپ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے اور ساتھ ہی ایران کے دفاعی نظام کو مکمل ناکارہ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے پاکستان سے محبت اور پاک بھارت کشیدگی میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کو “شاندار قوم” قرار دیا۔ ان بیانات میں اگرچہ بظاہر نرم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، لیکن ان کے پس پردہ مفادات اور عزائم ایک بار پھر واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکہ کی عالمی پالیسی ہمیشہ سے اپنے قومی مفاد کے گرد گھومتی رہی ہے۔ چاہے وہ سرد جنگ کا دور ہو، افغانستان کی جنگ ہو یا مشرق وسطیٰ کے تنازعات — امریکہ نے ہمیشہ اپنے جغرافیائی، سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے دیگر ممالک کو استعمال کیا ہے۔ ماضی کی مثالیں اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ امریکہ کبھی بھی خالص دوستی کے جذبے سے کسی ملک کے قریب نہیں آیا۔
1979 سے 1989 تک کے عرصے میں، جب امریکہ کو سویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ کی ضرورت پیش آئی، پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنایا گیا۔ سی آئی اے کے ذریعے اسلحہ، فنڈنگ اور تربیت کا سارا نظام پاکستان کے ذریعے چلایا گیا تاکہ مجاہدین کے ذریعے روس کو شکست دی جا سکے۔ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے، اور ساتھ ہی اسلحہ، منشیات، شدت پسندی اور فرقہ واریت کی لہر پاکستانی معاشرے میں داخل ہو گئی۔ جیسے ہی روس نے پسپائی اختیار کی، امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔
نائن الیون کے بعد ایک اور موقع آیا جب امریکہ کو دوبارہ پاکستان کی ضرورت پڑی۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کو “نان نیٹو اتحادی” قرار دیا گیا، امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ دی گئی، ہوائی اڈے فراہم کیے گئے، لیکن اس جنگ کی قیمت پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی، اندرونی عدم استحکام اور بداعتمادی کی شکل میں چکائی۔ بدلے میں نہ تو پاکستان کو مکمل اعتماد ملا، نہ معاشی استحکام، اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر کوئی مستقل ساکھ۔
مزید پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بین الاقوامی رہنماؤں کے ساتھ منفی رویے: ایک تجزیاتی رپورٹ
آج ایک بار پھر لگتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو کسی خاص مقصد کے لیے درکار سمجھ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران مخالف رویہ اور پاکستان کی تعریفیں دراصل اسی تزویراتی مفاد کا اشارہ دے رہی ہیں۔ ایران پر حملے کے امکان سے قبل امریکہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اتحادیوں کی صف بندی میں مصروف ہے۔ سعودی عرب، اسرائیل اور امارات پہلے ہی امریکی مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں، لیکن اگر پاکستان کو بھی کسی طرح ساتھ ملا لیا جائے تو امریکہ کو ایران پر دباؤ بڑھانے میں زبردست برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان، جو ایران کا ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک ہے، امریکہ کی ایران دشمن پالیسی کا حصہ بن سکتا ہے؟
ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی عسکری قیادت کی تعریف اور انہیں بھارت کے ساتھ امن کا ضامن قرار دینا بھی ایک خاص پیغام ہے۔ اس تعریف کا مقصد ممکنہ طور پر پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور اسے ایران مخالف صف میں شامل کرنا ہے۔ ٹرمپ کی ماضی کی سفارتی روش اور بیانات کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مفاد پرستی کو اصولی حیثیت دیتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان سے محبت کا اظہار وقتی اور ضرورت پر مبنی معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ایران پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہو۔
پاکستان اور ایران کے درمیان طویل سرحدی رابطہ، ثقافتی اور تجارتی تعلقات، دونوں ممالک کے لیے خطے میں استحکام کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوں گے، بالخصوص بلوچستان اور سرحدی علاقوں میں کشیدگی اور بدامنی پیدا ہو سکتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ جب بھی کسی ملک کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو عارضی دوستی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے، جیسا کہ روس کے خلاف، افغانستان کے خلاف، اور اب ایران کے خلاف اس کا طرزِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر پاکستان کو انتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو صرف اور صرف اپنے قومی مفادات کے تحت مرتب کرنا چاہیے۔ کسی عالمی طاقت کی خوشنودی یا دباؤ میں آ کر فیصلے کرنے سے نقصان پاکستان ہی کو ہوتا ہے، جس کی مثالیں ماضی میں موجود ہیں۔ ایران کے ساتھ محاذ آرائی نہ صرف ایک نئی جنگ کو جنم دے سکتی ہے بلکہ خطے کے لیے عدم استحکام کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ امریکہ کی دوستی وقتی اور مفاد پر مبنی ہے، اور پاکستان کو اب مزید ان غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار خارجہ پالیسی اپنائے، ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنائے، اور علاقائی اتحاد، جیسے چین، ترکی، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرے۔ کسی بھی بین الاقوامی تنازع میں شامل ہونے سے پہلے پارلیمنٹ، ماہرین، اور عوامی سطح پر مشاورت کی جائے تاکہ کوئی فیصلہ قومی اتفاق رائے سے ہو، نہ کہ بیرونی دباؤ کے تحت۔ یہ ہی ایک خوددار اور خودمختار ریاست کا رویہ ہوتا ہے۔