لندن(روشن پاکستان نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ان کے بین الاقوامی رہنماؤں کے ساتھ رویے نے عالمی سطح پر خاصی توجہ اور تنقید حاصل کی۔ ان کے غیر روایتی اور بعض اوقات جارحانہ انداز نے عالمی سیاست میں کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال پیدا کی۔ ان کے کچھ خاص واقعات جیسے برطانوی وزیرِ اعظم کے سامنے کاغذات گرنا، یوکرائنی صدر کے لباس پر تنقید اور دیگر واقعات نے دنیا بھر میں سیاسی حلقوں اور عوامی سطح پر بحث کو جنم دیا۔
G7 سربراہی اجلاس کے دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب صدر ٹرمپ نے برطانوی وزیرِ اعظم سر کیئر اسٹارمر کے سامنے اپنے اہم کاغذات گرادیے۔ اس موقع پر وزیرِ اعظم اسٹارمر نے فوراً کاغذات اٹھائے، تاہم یہ واقعہ صدر ٹرمپ کے غیر روایتی اور غیر متوقع رویے کی ایک مثال کے طور پر دیکھا گیا۔ اس واقعے نے عالمی میڈیا میں صدر ٹرمپ کی شخصیت اور ان کے آدابِ معاشرت پر سوالات اٹھائے۔
یوکرائنی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ متنازعہ رہا۔ وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے ہاتھ میں سیاہ فوجی طرز کا سویٹر دیکھ کر صدر ٹرمپ نے اس لباس پر تنقید کی۔ زیلنسکی کے اس لباس کا مقصد اپنے ملک کے فوجیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تھا، مگر صدر ٹرمپ کی تنقید نے عالمی حلقوں میں بحث کو ہوا دی۔ علاوہ ازیں، صدر ٹرمپ نے زیلنسکی کو “ڈکٹیٹر” قرار دیا، جس پر یوکرائنی صدر نے سخت ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ وہ روسی معلوماتی جنگ کا شکار ہیں۔
یہ رویے دیگر بین الاقوامی رہنماؤں کے لیے بھی چیلنج بنے۔ برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے مختلف مواقع پر زیلنسکی کی حمایت کی اور صدر ٹرمپ کی تنقید کو نا مناسب قرار دیا۔ عالمی برادری میں اس تنازعہ نے امریکہ کی سفارتی شبیہ پر منفی اثرات مرتب کیے۔
صدر ٹرمپ کے “امریکہ فرسٹ” نظریے کے تحت ان کے رویے اکثر دیگر ممالک کے مفادات کے برخلاف محسوس کیے گئے، جس سے بین الاقوامی تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ بڑھا۔ ان کی پالیسیاں اور اشارے عالمی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرتے رہے، خاص طور پر جب بات تجارتی معاہدوں، دفاعی اتحادوں، اور عالمی تنظیموں میں امریکہ کی شمولیت کی آتی تھی۔
مجموعی طور پر، صدر ٹرمپ کے منفی رویے نے عالمی سیاست میں ایک نیا چیلنج پیدا کیا، جہاں روایتی سفارتی آداب اور تعاون کو شدید دھچکا لگا۔ ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا کے کئی حصوں میں امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کیا، اور عالمی رہنماؤں کے ساتھ ان کے تعلقات میں سرد مہری پیدا کی۔
مزید پڑھیں: برطانیہ کی خفیہ ایجنسی MI6 کی سربراہی پہلی بار ایک خاتون کے سپرد