… ( اصغرعلی مبارک )……
بلوچستان کا آئندہ مالی سال کے لیے1028 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا گیا، بلوچستان پاکستان کا انتہائی اہم صوبہ ہے اور موجودہ وفاقی حکومت بلوچستان کی ترقی کے لیے کوشاں ہے بلوچستان کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی ہے۔زیادہ تر بین الاقوامی منصوبے بلوچستان میں شروع ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیابلوچستان کا ترقیاتی بجٹ عوام کا معیار زندگی تبدیل کر سکے گاحالیہ ترقیاتی بجٹ کو دیکھ کر ہم ہاں کہہ سکتے ہیں۔ بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ سے عوام کا معیار زندگی کو تبدیل کیا جا سکتا ہےکوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں جبکہ تعلیم، صحت، روزگار، انفرا سٹرکچر، صنعتیں اور کاشت کاری جیسی اہم ضروریات صرف نام کی حد تک ہیں۔
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ بلوچستان یوں تو قدرتی وسائل، معدنیاتی دولت، گہرے گرم سمندر سمیت کئی نعمتوں سے مالا مال ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود صوبہ ترقی کے تناسب میں ملک کا سب سے پست صوبہ تصور کیا جاتا ہے کوئی شک نہیں کہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی صورتحال ہے امن و امان کی صورت حال سے بلوچستان میں ترقیاتی کا م اورمعاملات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ آئے روز بدامنی کے واقعات نے تعلیم، صحت , ترقیاتی کا م اور سماجی زندگی کو مفلوج کردیا ہے جبکہ لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ چکا ہے۔
لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ باہر نکلے تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے جبکہ والدین بچوں کو پکنک پر بھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ حالیہ شدت پسندی نے جہاں نظام زندگی متاثر کیا ہے وہیں عوام کو خوف میں بھی مبتلا کیا ہے۔ امن و امان کیصورتحال کی وجہ سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں جس میں سب سے پہلا معاشی عدم استحکام ہے۔ اگر کسی بھی علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو تو تاجر برادری ایسے علاقوں میں انویسٹمنٹ نہیں کرتی ایسے میں اگر تاجر انویسٹمنٹ نہیں کریں گے تو وہاں روزگار کے مواقع پیدا ہونا مشکل ہو جائیں گے اور بے روزگاری کے سبب نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں گے۔ اس کے علاوہ بدامنی صوبے میں سیاحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر سیاح نہ آئیں تو چھوٹے کاروباری طبقے کے مسائل میں اضافہ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں اگر صوبے میں امن بحال ہو جائے تو بلوچستان کے آدھے مسائل حال ہوسکتے ہیں,ہر سال اربوں روپے کا ترقیاتی بجٹ دیا جاتا ہے لیکن یہ بجٹ نہ جانے کہاں خرچ ہوتا ہے کیونکہ صوبے میں نہ تو بہتر تعلیمی ادارے ہیں اور نہ ہی صحت کی مناسب سہولیات ہیں اس کے علاوہ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں موٹر وے جیسی کوئی سہولیات نہیں, صوبے میں بے روزگاری کی شرح ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ بلوچستان کی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر محیط ہے۔ جن میں سے 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق 32 فیصد خواندہ ہیں جبکہ باقی نوجوان یا تو ہنر مند ہیں یا تجارت سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے سرکار نوکریاں سرکاری محکمے فنڈز کی کمی کے سبب پیدا نہیں کر پا رہے ہیں جبکہ صوبے میں صنعتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے طبقے کے لیے فری لانسنگ کا آپشن بھی موجود نہیں کیونکہ صوبے کے 50 سے 60 فیصد علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بہتر نہیں۔ صوبے کے بیشتر نوجوان سرحدی تجارت سے منسلک ہیں لیکن حکومتی پالیسیوں کے سبب پاک ایران اور پاک افغان سرحد بند ہونے کی وجہ سے یہ نوجوان طبقہ بھی بے روزگار ہو رہا ہے۔ ۔
میں خود سبی بلوچستان میں پیدا ہوا اور گورنمنٹ ہائی سکول بابو محلہ کوئٹہ میں تعلیم حاصل کی۔مجھے بلوچستان کے دور دراز کے بنیادی مسائل کا علم ہے۔لیکن مجھے خوشی ہے کہ حالیہ بجٹ میں بنیادی ضروریات پر بات کی گئی ہے۔
ترقیاتی پروگراموں کے لیے 240 ارب روپے، غیرترقیاتی بجٹ 642 ارب روپے تجویز ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ تجویز کیا گیاہے۔
امید ہے کہ بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ سے بلوچستان کے لوگوں کا طرز زندگی بدل جائے گا
بلوچستان اسمبلی میں وزیرخزانہ شعیب نوشیروانی نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے قلیل وقت میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، رواں مالی سال کا 100 فیصد ترقیاتی بجٹ استعمال کیا جاچکا ہے جس سے بلوچستان کے ترقیاتی کاموں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ کا 21 فیصد سڑکوں، 18 فیصد آبپاشی، 13 فیصد تعلیم ، 8 فیصد صحت اور 2.3 فیص توانائی کے لیے رکھا گیا تھا، تعلیمی شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے 32ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی, عوام کو صاف پانی کی رسائی، ڈیموں کی تعمیر اور پانی دیگر منصوبوں پر 46 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ اہل ملازمین کو گریڈ 1 سے 16 تک ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ 36 ارب 50 کروڑ روپے کا سرپلس بجٹ ہے، بجٹ میں محکمہ صحت کے مختلف منصوبوں اور نئی آسامیوں کیلئے ترقیاتی مد میں 16 ارب 40 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 71ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ اسکیم کے لیے چار ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ سرفہرست ہے، محکمہ تعلیم کے لیے 1170کنٹریکٹ،67 ریگولر آسامیاں تخلیق کی گئیں، رواں مالی سال میں ای سی ای اور اسکول ایجوکیشن کے لیے 28 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گلوبل پارٹنرشپ ایجوکیشن گرانٹ کے تحت تعلیم میں مزید بہتری اصلاحات کے لیے 6 ارب 70 کروڑ روپے کی گرانٹس مختص کی گئی ہیں. آئندہ مالی سال میں 1200 سے زائد اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں، آئندہ بجٹ میں اسکول ایجوکیشن کے لیے ترقیاتی مد میں 19ارب 80 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 101 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ ہائیر ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لیے رواں مالی سال 22 ارب 81 کروڑ روپے رکھے گئے تھے، اس سال جامعات کےبجٹ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ شعبہ کالجزکے غیرترقیاتی بجٹ کیلئے 24ارب اور ترقیاتی امور کیلئے 5ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں ایک ہزار ملین روپے کی رقم میرچاکر خان یونیورسٹی کے سب کیمپس کو فعال بنانے کے لیے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ صوبائی وزیرخزانہ نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، زراعت کے شعبے کے ترقیاتی امور کیلئے 10ارب،غیرترقیاتی امور کیلئے 16ارب 77کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں اس شعبے کےلیے ترقیاتی مد میں 26.9 ملین روپے اور ترقیاتی مد میں ایک ارب 19 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے ترقیاتی امور کے لیے 12 ارب 90 کروڑ اور غیرترقیاتی امور کیلئے 42ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کےلیے ترقیاتی مد میں 66 ارب 80 کروڑ اور غیرترقیاتی مد میں 17 ارب 48 کروڑ روپےمختص کیے گئے ہیں۔ صوبے کی ترقی کے لیے امن و امان کاقیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے میں امن قائم کیا ہے، آئندہ مالی سال میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے غیرترقیاتی مد میں 83 ارب 70 کروڑ روپے اور ترقیاتی مد میں 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ محکمہ آبپاشی کے غیر ترقیاتی امور کیلئے 5ارب 30کروڑ روپے اور ترقیاتی امور کیلئے 42 ارب 70 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے غیرترقیاتی امور کیلئے 46 کروڑ 35لاکھ روپے اور ترقیاتی امور کے لیے 54 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان ریلویز کے اشتراک سے پیپلزٹرین سروس چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یہ ٹرین سروس ابتدائی طور پر کوئٹہ کے نواحی علاقوں سریاب اور کچلاک کے درمیان چلے گی۔ پاکستان ریلویز کے موجودہ 5 اسٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جبکہ2 نئے اسٹیشن بھی تعمیر ہوں گے۔بلوچستان صوبہ اس لحاظ سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے کہ اس کی ایک طرف طویل سرحد ایران اور افغانستان سے ملتی ہے۔ دوسری طرف جیونی تا گوادر تک وسیع و عریض ساحل سمندر ہے۔ بلوچستان کا صوبہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہاں بہترین محل وقوع رکھنے والے ایک یا دو نہیں بلکہ چار بندرگاہیں ہیں, گوادر، پسنی، جیونی، پیشوکان بحیرۂ عرب اور خلیجِ فارس کے دہانے پر موجود ہیں بلوچستان کے وسیع ساحل سمندر میں موجود بندرگاہوں کو جدید شہر بنا کر ہم چاہ بہار اور مسقط کی بندرگاہوں کے مقابل لا سکتے ہیں مگر یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت اس طرف توجہ دے۔
یہاں کاپر، جپسم، تانبا، سونا، سنگ مر مر، تیل و گیس کے اربوں کھربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر موجود ہونے کے باوجود ابھی تک ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
اگر زیر زمین چھپے ان خزانوں کو ہی کھود کر باہر نکالا جاتا اور استعمال میں لایا جاتا تو پاکستان ترقی کے سفر میں کہاں سے کہاں تک جا پہنچا ہوتا ہمیں ترقی کی دوڑ میں دنیا کے شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے بالآخر زیر زمین پوشیدہ ان خزانوں کو استعمال میں لانا ہوگا۔
بلوچستان میں قدرت نے ہر قسم کے پھل پیدا کیے ہیں جن میں اخروٹ، انجیر، بادام، چیری، خوبانی، آڑو اور انگور کی بہتات ہے۔ اگر یہاں کے کسانوں کاشتکاروں کو جدید طریقے سے ان پھلوں کو محفوظ کرنے اور بیرون ملک فروخت کرنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں تو اس سے ہزاروں خاندانوں کا بھلا ہو سکتا ہے صرف کھجور کو ہی اگر عالمی منڈی میں مناسب جدید پیکنگ کے ساتھ فروخت کیا جائے تو سالانہ بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ یہاں سب سے زیادہ مویشی پالے جاتے ہیں۔ پھلوں کے بعد یہ مویشیوں کی تعداد میں بھی سب سے اہم صوبہ ہے۔ گلہ بانی یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔ ویسے ہی جیسے سمندر کی وجہ سے یہ مچھلی، جھینگوں کی خرید و فروخت میں سب سے نمایاں ہے۔ کچی نہر کی طرح اگر صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی نہری نظام بچھایا جائے اور سمندری پانی کو استعمال کے قابل بنا کر مختلف علاقوں تک نہروں کے ذریعے پہنچایا جائے تو یہ صوبہ غذائی اجناس میں بھی خودکفیل ہو سکتا ہے۔
صرف گوادر کی بدولت پورے صوبے میں تجارت اور صنعتی ترقی کی راہ کھولی جا رہی ہے اس طرح یہاں کے لاکھوں جوانوں کو روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کی بنجر پڑی زمینوں کو مصرف میں لا کر ایک خوشحال صوبے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کے عوام جن میں بلوچ اور پشتون دونوں شامل ہیں اپنے صوبے کی ترقی کے لیے دل سے خواہاں ہیں۔ خوش قسمتی سے صوبائی کابینہ بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں اور صوبے کے وسائل کو ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس طرح صوبائی انتظامیہ صوبے کی ترقی کی مخالف عناصر کی تمام تر منفی کارروائیوں اور پراپیگنڈے کے خاتمے کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل تلاش کرے تاکہ معدنی دولت اور قدرت کے خزانوں سے بھرا یہ صوبہ اور اس کے باسی سکون و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ امید ہے کہ بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ سے بلوچستان کے لوگوں کا طرز زندگی بدل جائے گایاد رہے کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے یکم جون کو ان کے دورے کے دورانبلوچستان کے عوام کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا عزم کیا تھاوزیراعظم نے بلوچستان میں سولرائزیشن پراجیکٹ کے لیے 70 ارب روپے خرچ کرنے اور نیشنل ہائی وے این25 کی تعمیر کے لیے 150 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیاتھا، جو بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے حاصل ہونے والی رقم سے فراہم کیے جائیں گے۔اس سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے ایک ہزار ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے 25 فیصد یعنی 250 ارب روپے بلوچستان کے منصوبوں کے لیے مخصوص کیے جائیں گے۔ ان فنڈز کو شفاف طریقے سے صوبے کی ترقی پر خرچ کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بلوچستان کے طلبہ کے لیے مختلف اسکیموں میں 10 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا ذکر کیاتھا، جس میں لیپ ٹاپ اسکیم اور بیرونی و اندرونی تعلیمی اداروں میں وظائف شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا تھاکہ گزشتہ دور حکومت میں بلوچستان کے لیے دل کے ہسپتال کے قیام کے لیے 2 ارب روپے دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ، پنجاب نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ سے بلوچستان کے لیے 160 ارب روپے فراہم کیے، جو صوبے کے وسیع علاقے کی ترقی کے پیش نظر دیے گئے۔ وزیراعظم نے کہاتھا کہ بلوچستان کے بزرگوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے واقعات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد غیر ملکی ایجنٹس ہیں جو پاکستان کی ترقی کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے زور دیا تھاکہ ملک کی ترقی امن سے وابستہ ہے