کوئٹہ (روشن پاکستان نیوز)بلوچستان کی عوام ایک بار پھر ریاستی بے حسی کا شکار۔ صوبے میں ڈھائی لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی مراعات، چائے پانی، تیل، علاج اور تحفہ تحائف کے نام پر سالانہ 48 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، لیکن ایک کروڑ 26 لاکھ کی آبادی کو اب تک ایک ایسا مکمل سہولیات سے آراستہ سرکاری ہسپتال میسر نہیں جس پر فخر کیا جا سکے۔
سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی حکومت کے دور میں ایک ہسپتال کی عمارت ضرور تعمیر کی گئی، مگر اس عمارت میں ایک سرکاری اور ایک نیم سرکاری ادارہ بیک وقت چل رہے ہیں، جس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اصل میں ذمہ دار کون ہے؟ مریض شش و پنج میں مبتلا ہیں، اور علاج کے لیے دور دراز شہروں کا رخ کرنے پر مجبور۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اصل قصور بلوچستان کی خاموش عوام کا ہے، جو اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ اگر بلوچستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق، خاص طور پر صحت جیسے اہم مسئلے پر متحد ہو کر آواز بلند کریں تو حکومت کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف سرکاری ملازمین کی مراعات پر رقم خرچ کرنے کے بجائے عوامی فلاح پر بھی توجہ دے۔
مزید پڑھیں: پمز ہسپتال کی یونینز کا وفاقی بجٹ 2025 مسترد، ہیلتھ ملازمین کو نظرانداز کیے جانے پر شدید ردعمل
بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں صحت کی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ دیہی علاقوں میں تو بنیادی صحت مراکز بھی اکثر غیر فعال ہیں، جبکہ ضلعی ہسپتالوں میں ماہر ڈاکٹرز، ادویات اور مشینری کا فقدان معمول بن چکا ہے۔ پسماندگی کے اس عالم میں عوام پر مزید ظلم یہ ہے کہ صحت کے بجٹ کا بڑا حصہ صرف اشرافیہ کی عیاشیوں پر صرف ہو رہا ہے۔
صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوان، سماجی کارکنان اور سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کے صحت کے بجٹ کو ازسرنو ترتیب دیا جائے، ہر ضلع میں جدید طرز کا مکمل سہولیات سے آراستہ ہسپتال قائم کیا جائے، اور ہسپتالوں میں شفافیت اور احتساب کا نظام نافذ کیا جائے تاکہ عام آدمی کو بنیادی علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔