سوشل میڈیا پر خیرات کے نام پر نیا دھندہ — غریبوں کا استحصال، شہرت اور پیسے کا کھیل

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، تاہم بدقسمتی سے اس کے منفی اثرات بھی نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں سوشل میڈیا نے عام لوگوں کو اظہار رائے کا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے، وہیں دوسری جانب کچھ افراد نے اس پلیٹ فارم کو فحاشی، بے حیائی اور سماجی اقدار کے خلاف مواد پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ لائکس، فالوورز اور ویوز کے لالچ میں نوجوان نسل ایسے ویڈیوز اور تصاویر شیئر کر رہی ہے جو نہ صرف اخلاقی حدود کو پامال کرتی ہیں بلکہ اسلامی اقدار کے بھی منافی ہیں۔

خاص طور پر بعض ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے ایک نیا رجحان شروع کیا ہے جس میں وہ غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور لاچار افراد کی مدد کے نام پر ان کی ویڈیوز بناتے ہیں۔ یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہیں جن میں ان افراد کی غربت اور بے بسی کو نمایاں انداز میں دکھایا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ اقدام خیر خواہی پر مبنی معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک نفع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ اوورسیز پاکستانی ان ویڈیوز کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں اور دل کھول کر امداد بھیجتے ہیں، مگر اکثر یہ رقوم حقیقی مستحقین تک نہیں پہنچتیں بلکہ سوشل میڈیا پر موجود یہ “مددگار” افراد خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل پر سوشل میڈیا پر بحث، نوجوانوں کو دینی حدود کی پاسداری کی ضرورت پر زور

یہ طرز عمل نہ صرف غریبوں کے جذبات کا استحصال ہے بلکہ انسانی وقار کی خلاف ورزی بھی ہے۔ مجبوری اور بے کسی کو دکھا کر شہرت اور پیسہ کمانا معاشرتی و اخلاقی زوال کی علامت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس سلسلے میں واضح پالیسی مرتب کرنی چاہیے تاکہ ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکے جو سماجی خدمات کے نام پر سوشل میڈیا کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے ہر خیراتی اقدام پر اندھا اعتماد نہ کریں اور امداد سے پہلے تصدیق کو لازم بنائیں تاکہ حقیقی مستحقین تک ہی مدد پہنچ سکے۔

مزید خبریں