اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور سماجی حدود کی پامالی بھی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹک ٹاک پر “احد خان” کے نام سے ایک آئی ڈی سامنے آئی ہے جس پر دو نوجوان لڑکے اور ایک اور آئی ڈی پر تین لڑکیاں مختلف لائیو میچز میں شریک دکھائی دے رہی ہیں۔ ان لائیو سیشنز میں، جو کہ بڑی تعداد میں ناظرین کو متوجہ کرتے ہیں، میچ ہارنے کے بعد لڑکیوں کو ایسی حرکات کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ معاشرتی اقدار کے بھی خلاف ہیں۔
میچ ہارنے پر، ان لڑکیوں کو “مرغی” بننے کی سزا دی جاتی ہے، جس میں وہ اپنی پوزیشنز ایسی طریقے سے کیمرے کے سامنے اختیار کرتی ہیں جو نہایت شرمناک اور نامناسب قرار دی جا سکتی ہیں۔ اس قسم کی لائیو اسٹریمز میں اکثر لڑکیاں اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو نمایاں کر کے، فالوورز یا گفٹس حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے لیے ایک افسوسناک رجحان بن چکا ہے۔
یہ امر نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے بلکہ نوجوان نسل کے اخلاقی زوال کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ والدین، تعلیمی ادارے اور ریاستی ادارے اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ وہ نہ صرف نوجوانوں کی تربیت کریں بلکہ ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کنٹرول کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور دیگر متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ ایسے مواد کے خلاف فوری کارروائی کریں اور ایسی آئی ڈیز کو بلاک کر کے ان افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے جو نوجوانوں کو ایسی غیر اخلاقی حرکات پر اکساتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹک ٹاک کی لت میں مبتلا دو بچوں کی ماں نے کمپنی سے £300,000 چرا لیے، 28 ماہ قید کی سزا
اسی کے ساتھ ساتھ، یہ بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کا بھی تحفظ ممکن ہو سکے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اگر فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ رجحان معاشرے کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔