✍️ مشتاق احمد بٹ
سیکریٹری اطلاعات، کل جماعتی حریت کانفرنس
برصغیر کی تقسیم کو سات دہائیاں بیت چکی ہیں، مگر جموں و کشمیر آج بھی خون، آنسو اور بے یقینی کی ایک زندہ داستان بنا ہوا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو بظاہر جغرافیائی تنازع لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک قوم کے وجود، شناخت، حقِ آزادی اور انسانی وقار کی جنگ ہے۔ اور اس جنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ملک ہے، جو دنیا کے سامنے خود کو جمہوریت، انصاف اور ترقی کا علمبردار کہتا ہے — یعنی بھارت۔
جموں و کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ یہ تنازع کوئی داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متعدد قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ مگر بھارت نے ان قراردادوں کو ماننے کے باوجود آج تک ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو ہر بین الاقوامی فورم پر جمہوریت کا راگ الاپتا ہے، آخر کیوں کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق — حقِ خودارادیت — دینے سے مسلسل انکار کر رہا ہے؟
تاریخ کا ایک سچ
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، جس پر مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا متنازع فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو کشمیری عوام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بھارت خود اس معاملے کو اقوام متحدہ لے گیا اور وہاں وعدہ کیا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ نے اس مؤقف کی تائید کی، لیکن بھارت نے وقت کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو نہ صرف تبدیل کیا بلکہ انہی قراردادوں سے منہ موڑ لیا۔
5 اگست 2019: نئی نوآبادیاتی یلغار
5 اگست 2019 کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ یہ اقدام نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں، بلکہ شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ جیسے دو طرفہ معاہدات کی بھی صریح خلاف ورزی تھا۔ اس کے بعد ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہ راست دہلی کے زیر انتظام کر دیا گیا، اور غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کے دروازے کھولے گئے۔ یہ نوآبادیاتی یلغار کشمیری شناخت، ثقافت اور سیاسی خودمختاری کو مٹانے کی منظم کوشش ہے۔
ظلم کی ایک طویل فہرست
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ظلم و جبر کی داستان اتنی طویل ہے کہ ہر صفحہ چیخ رہا ہے۔ پیلٹ گنز سے نوجوانوں کو نابینا کرنا، ماورائے عدالت قتل، خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، ہزاروں افراد کی بغیر مقدمے کے گرفتاری، اور انٹرنیٹ و میڈیا پر مسلسل قدغن — یہ سب کسی جمہوریت کی نہیں، ایک قابض قوت کی نشانیاں ہیں۔
عالمی ادارے بھی اس حقیقت کی تصدیق کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت متعدد تنظیمیں بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اپنی رپورٹس جاری کر چکی ہیں۔ مگر افسوس کہ دنیا ان حقائق پر یا تو خاموش ہے یا محض علامتی تشویش کا اظہار کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔
عالمی برادری کی بے حسی اور بھارت کا دوغلا پن
بھارت نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کیا بلکہ بین الاقوامی مبصرین کو کشمیر تک رسائی دینے سے بھی انکار کیا۔ اس نے مسئلہ کشمیر کو “اندرونی معاملہ” قرار دے کر عالمی برادری کو مسلسل گمراہ کرنے کی کوشش کی، اور کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو “دہشت گردی” کا نام دے کر اسے دبانے کی مہم چلائی۔
یہ سب اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت اس مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتا بلکہ اسے طاقت کے ذریعے ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں، جو دنیا کے دوسرے خطوں میں انسانی حقوق کے نام پر مداخلت کرتی ہیں، کشمیر کے مسئلے پر شرمناک حد تک خاموش ہیں — شاید بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کی خاطر۔
جنوبی ایشیا کا مستقبل: ایک نازک توازن
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر وہ تین جنگیں لڑ چکے ہیں، اور کئی بار جنگ کے دہانے پر آ چکے ہیں۔ اگر یہ تنازع اسی طرح برقرار رہا تو نہ صرف جنوبی ایشیا کی اقتصادی ترقی رک جائے گی بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ایٹمی تصادم کا اندیشہ، دہشت گردی کو جواز، اور علاقائی روابط کی بندش — یہ سب وہ خطرات ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو اس کی اصل بنیادوں پر تسلیم نہیں کرتا، تب تک یہ خطہ ایک بارودی سرنگ بنا رہے گا۔
اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے
اب سوال صرف کشمیر کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اپنی دوہری پالیسی ترک کرے اور اصولی مؤقف اپناتے ہوئے بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دینا صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی، اخلاقی اور قانونی تقاضا ہے۔
بھارت اگر واقعی ایک جمہوری ملک ہے تو اسے کشمیریوں کو بولنے، سوچنے اور انتخاب کا حق دینا ہوگا۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتا، وہ نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے امن، ترقی اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی ہے۔