اقتصادی سروے جاری; عوام دوست بجٹ;پاکستان کا دفاعی بجٹ بڑھانا ناگزیر ؟

…. ( اصغرعلی مبارک )… ……

پاکستان نے بہترین حکمت عملی سے جنگ جیتی لیکن بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز میں پاکستان کو دفاعی بجٹ بھی بڑھانا چاہیے ,دوسری طرف وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اقتصادی سروے جاری کر دیاہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہم معاشی استحکام کی طرف گامزن ہیں، رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی ، پاکستان کی افراط زر 4.6 فیصد ہے۔ گزشتہ سال پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا، جو اب 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پرآگیا، آئی ایم ایف پروگرام سے ہمارا اعتماد بحال ہوا، وزیر اعظم شہباز شریف نے ایس بی اے پروگرام حاصل کیا، نگران وزیر خزانہ کا اس پروگرام کو ٹریک پر رکھنا قابل ستائش ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کیلئے اصلاحات ضروری تھیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے، حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے اصلاحات کی ہیں۔ ہر ٹرانسفارمیشن کیلئے دو سے تین سال درکار ہوتے ہیں، پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام تھا ، عالمی گروتھ کی نسبت پاکستان نے جی ڈی پی گروتھ میں ریکوری کی، عالمی مہنگائی دو سال پہلے 6.8 تھی جو اب 0.3 فیصد ہے، پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 4.6 فیصد ہے۔ رواں مالی سال زر مبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ رہا، ہم نے اب جی ڈی پی کے استحکام کی طرف بڑھنا ہے، ہم اس وقت بہتر سمت میں چل رہے ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی حالیہ قسط مشکل کا سامنا تھا، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اس میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں مقامی وسائل کا فروغ ترجیحات ہیں، تعمیراتی شعبے میں گروتھ 1.3 فیصد تھی جو گزشتہ سال 3 فیصد تھی، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ گروتھ ریٹ کم ہو کر 1.5 رہی جبکہ ٹیکسٹائل گروتھ اضافہ کے ساتھ 2.2 فیصد رہی اہم فصلوں میں 13.49 فیصد کمی ہوئی۔ کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد، گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد اور گنےکی پیداوار میں 3.9 فیصد کمی ہوئی ہے، مکئی میں 15.4 فیصد ، چاول میں 1.4 فیصد کمی ہوئی،آلو کی فصل میں 11.5 فیصد اور پیاز میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی گروتھ اضافہ کے ساتھ 4.5 فیصد رہی ، کیمیکل گروتھ کمی کے ساتھ 5.5 فیصد رہی، فارماسوٹیکل میں گروتھ اضافہ کے ساتھ 2.3 فیصد رہی، کان کنی اور کھدائی کی گروتھ کم ہو کر 3.4 فیصد رہی۔ جولائی سے مارچ کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی تناسب سے 0.8 فیصد خرچ ہوا، اعلیٰ تعلیم کے لیے 61.1 ارب روپے مختص کیے گئے، مجموعی شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، جس میں سے مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد اور خواتین کی 52.8 فیصد رہی، پرائمری سطح پر داخلے 2.483 کروڑ تک پہنچ گئے۔ پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 160 سرکاری اور 109 نجی ہیں، اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو آئی ٹی، زراعت، کان کنی، تعمیرات کے شعبوں میں تربیت دی گئی عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، سیلاب نے 3.3 کروڑ افراد کو متاثر کیا اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا، پاکستان میں سال 2024 میں 31 فیصد زائد بارشیں ہوئیں۔ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ کل آمدن 13.37 کھرب رہی، ٹیکس آمدن میں 25.8 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس آمدن 9.14 فیصد رہی، نان ٹیکس آمدن میں 68 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس آمدن 4.23 کھرب رہی، ٹوٹل اخراجات 16.34 کھرب روپے رہے، کرنٹ اخراجات میں 18.3 فیصد اضافہ رہا،کرنٹ اخراجات 14.59 فیصد رہے، ترقیاتی اخراجات میں 32.6 فیصد اضافہ ہوا، 1.54 کھرب روپے رہا، مالیاتی خسارہ 2.6 فیصد رہا، پرائمری سرپلس 3 فیصد رہا۔ حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے دفاعی اخراجات میں 159 ارب روپے اضافے کا تخمینہ لگایا ہے، جس کے تحت آئندہ سال کے لیے دفاعی بجٹ 2 ہزار 281 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ نئے بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں دفاعی اخراجات میں 7.49 فیصد اضافہ متوقع ہے۔مالی سال 2024-25 کے لیے دفاعی بجٹ 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کیا گیا تھا، جو کہ گزشتہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ 1 ہزار 858 ارب 80 کروڑ روپے سے 14.16 فیصد زیادہ تھا۔رواں مالی سال میں دفاعی بجٹ میں 263 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا، جب کہ آئندہ مالی سال کے لیے مزید 159 ارب روپے اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز اور جدید عسکری سازوسامان کی خریداری کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان جے 35اے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے اس سے ترقیاتی بجٹ پر زیادہ کٹ نہیں لگے گا۔پاکستان کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً سات ارب 50 کروڑ ڈالر ہے جبکہ انڈیا کا دفاعی بجٹ تقریبا 86 ارب ڈالر ہے جوکہ 10 گنا سے بھی زیادہ ہے
پاکستان کے مالی سال 2025-2026 کا وفاقی بجٹ 10 جون کو پیش کیا جائے گا موجودہ حکومت اوروفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب قومی اسمبلی میں اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے لیے تما م تیاریاں مکمل ہیں۔وفاقی بجٹ 26-2025 کیلئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے شیڈول کی منظوری دی ہے جس کے تحت وفاقی بجٹ 10 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، 11 اور 12 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا، جبکہ 13 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز ہوگا، اور بحث کا یہ سلسلہ 21 جون تک جاری رہے گا۔
قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق بحث کےلئے وقت دیا جائے گا، اس کے علاوہ 23 جون کو قومی اسمبلی میں 26-2025 کے مختص کردہ ضروری اخراجات پر بحث بھی ہوگی 24 اور 25 جون کو ڈیمانڈز، گرانٹس، کٹوتی کی تحاریک پر بحث اور ووٹنگ ہوگی، جبکہ اس کے ٹھیک ایک دن بعد 26 جون کو فنانس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری ہوگی، اور 27 جون کو سپلیمنٹری گرانٹس سمیت دیگر امور پر بحث اور ووٹنگ ہوگی, پاکستان نے بہترین حکمت عملی سے جنگ جیتی ہے چین نے پاکستان کو جدید دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی کی پیشکش کی ہے، جن میں 40 عدد ففتھ جنریشن جے-35 سٹیلتھ جنگی طیارے، کے جے-500 ایواکس، اور ایچ کیو-19 لانگ رینج بیلسٹک دفاعی نظام شامل ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان جے 35اے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے اس سے ترقیاتی بجٹ پر زیادہ کٹ نہیں لگے گا۔پاکستان کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً سات ارب 50 کروڑ ڈالر ہے جبکہ انڈیا کا دفاعی بجٹ تقریبا 86 ارب ڈالر ہے جوکہ 10 گنا سے بھی زیادہ ہے اور حجم کے حساب سے دنیا کا پانچواں بڑا دفاعی بجٹ ہے۔ پاکستان کے ایک جے10سی طیارے کی قیمت تقریبا چار کروڑ ڈالرز ہے جبکہ انڈیا کے ایک رافیل طیارے کی قیمت تقریباً 24 کروڑ ڈالرز ہے جس جے 10سی طیارے کی دھوم ہے، پاکستان نے فروری 2022 میں آئی ایم ایف کی ایک ارب ڈالر قسط ملنے کے بعد چھ جی 10سی خریدے تھے بقیہ چھ جے 10سی اگست 2022 میں آئی ایم ایف کی اگلی قسط 1.1 ارب ڈالر ملنے کے بعد لیے گئے تھے۔ ان معاشی حالات میں یہ مشکل فیصلہ تھا۔ چین نے 3.7 ارب ڈالرز کے قرض کی ادائیگی مؤخر کر دی۔ حکومتِ پاکستان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان نے حالیہ مہینوں میں بین الاقوامی سطح پر متعدد اہم سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن کا دائرہ کار دفاعی، اقتصادی، تعلیمی اور تکنیکی شعبوں تک پھیلا ہوا ہے چین کے علاوہ پاکستان کے بنگلہ دیش سے بھی 50 سال سے زائد عرصے بعد دفاعی اور تجارتی تعلقات بحال ہوئے ہیں جبکہ افغانستان، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے تحت سی پیک کے دوسرے فیز میں شامل ہو گیا ہے اس کے علاوہ یورپی یونین نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) پر عائد چار سالہ پابندی ختم کر دی ہے۔عوام کی اکثریت یہ نہیں جانتی ہے کہ چار دنوں میں لڑے جانی والی جنگ پچھلے 50 سالوں میں دو جوہری قوتوں کے درمیان لڑی جانے والی سب سے مہنگی جنگ ہے ,انڈیا اور پوری دنیا پاکستان کے انڈیا کو جنگ ہرانے پر حیران اور پریشان ہے، اس کی وجہ اعدادوشمار ہیں۔ پاکستان نیوی کا بجٹ تقریبا 90 کروڑ ڈالر ہے۔ جبکہ انڈین نیوی کے صرف آئی این ایس وکرانت کا بجٹ تقریباً تین ارب 10 کروڑ ڈالر ہے۔پاکستان تقریباً ایک ارب 70 کروڑ ڈالرز نئے ہتھیاروں کی خرید پر خرچ کرتا ہے جبکہ انڈیا تقریبا 22 ارب ڈالرز ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان ایک سپاہی پر تقریباً 11 ہزار 363 ڈالرز خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت ایک سپاہی پر تقریبا 57 ہزار 333 ڈالرز خرچ کرتا ہےانڈیا ایک فوجی پر پاکستان کی نسبت تقریبا 500 فیصد زیادہ بجٹ خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کا سالانہ ملٹری پنشن بجٹ تقریبا دو ارب ڈالر ہے جبکہ انڈیا کا ڈیفنس پنشن بجٹ تقریباً 17 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے پاس ٹینکس تقریباً 1400 ہیں جبکہ انڈیا نے صرف ایک مخصوص کوالٹی کے 1700 ٹینکس آرڈر کیے ہیں۔ 2012 سے آج تک انڈیا تقریبا 748 ارب ڈالرز دفاعی بجٹ بڑھا چکا ہے، دنیا کے جدید ترین طیارے اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام حاصل کر چکا ہے لیکن اتنے بڑے بجٹ سے صرف 87 گھنٹوں کی جنگ نہیں لڑ سکا ہے اور پاکستان سے جنگ ہار گیا ہے جو بجٹ، حجم، آبادی اور اسلحہ میں انڈیا سے 10 گنا چھوٹا ہے صرف ایک دن میں انڈین سٹاک ایکسچیبج کو 85 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے جنگ ہارنے کے بعد انڈیا نے 50 ہزار کروڑ (تقریبا پانچ ارب پچاسی کروڑ ڈالرز) کا دفاعی بجٹ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر انڈیا دفاعی بجٹ بڑھاتا ہے تو پاکستان کو مجبورا دفاعی بجٹ بڑھانا پڑے گا۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں 18 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے ایک اندازے کے مطابق جنگی ہتھیاروں اور دفاعی تنصیبات کی مد میں براہ راست تقریبا 87 ارب ڈالرز کا مجموعی نقصان ہوا ہے۔ ایک گھنٹے میں ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ جس میں سے بھارت کا نقصان تقریباً 64 ارب ڈالر اور پاکستان کا تقریباً 14 ارب ڈالر نقصان ہوا ہے پاکستان کا نقصان 20 فیصد اور انڈیا کا نقصان 80 فیصد ہے۔ یہ رقم تقریباً پاکستان کے کل ڈالر کے ذخائر کے برابر ہے۔ اگر یہ جنگ ایک ماہ چلتی تو صرف بھارت کو تقریبا 480 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا۔ پاکستان کو تقریبا 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا جو کہ تقریبا پاکستان کے کل قرضوں کے برابر ہے۔ سرمایہ کاری، سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھنے سمیت دیگر عوامل بھی شامل کیے جائیں تو دونوں اطراف سے ٹوٹل نقصان تقریباً 500 ارب ڈالرز بنتا ہے۔ شمالی انڈیا میں فلائٹس کی مد میں تقریبا 80 لاکھ ڈالرز کا ایک دن میں نقصان ہو رہا ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ بند ہونے سے پانچ کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا اور پی ایس ایل کی بندش سے تقریبا ایک کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان کا خرچہ ہوا ہے نقصان نہیں ۔ کسی بھی معتبر میڈیا نے پاکستان کے اثاثوں کا نقصان رپورٹ نہیں کیا۔ صرف جہاز اڑانے، میزائل چلانے، بچاؤ کی تدبیر کرنے اور ایئر ڈیفنس سسٹم کو ایکٹو رکھنے کا خرچ ہوا ہےسات تا 10 مئی جنگ میں کتنا معاشی نقصان ہوا ہے، اکنامک تھینک ٹینک نے اس حوالے سے کوئی مستند اعدادوشمار جاری نہیں کیے ہیں۔ جو نقصان رپورٹ ہو رہے ہیں یہ مختلف ماہرین کے اندازے ہیں ان میں کچھ کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ انڈیا کا نقصان پاکستان کی نسبت چار گنا زیادہ ہے پاکستانی ایئر سپیس بند کرنے کا بھی زیادہ نقصان انڈیا کو ہوا 2019 میں پلوامہ سانحہ کے بعد بھی انڈیا کے دو طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر گرا تھا پاکستان کا کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ یہ اعدادوشمار کافی حساس ہوتے ہیں۔ مختلف ماڈلز کے میزائل لانچ کرنے کا خرچ مختلف ہے، ایک رافیل کو اڑانے کے لیے ایک جے 10سی کے مقابلے میں چار گنا زیادہ فیول درکار ہے، براہموس ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والا میزائل ہے، یہ انڈیا کا مہنگا ترین میزائل ہے۔ تین رافیل، چار دیگر طیارے، ایس 400 ڈیفنس سسٹم، 16 سے زیادہ ایئر بیسز اور 500 سے زیادہ ڈرونز کے تباہ ہونے کا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ مہینے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے دوران امریکہ نے ثالثی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اقتصادی میدان میں بھی پاکستان نے قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان کے ساتھ 10 سالہ ’کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک‘ کے تحت 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت 20 ارب ڈالر صحت، تعلیم، نوجوانوں کی ترقی اور دیگر سماجی شعبوں میں خرچ کیے جائیں گے، جبکہ باقی 20 ارب ڈالر انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC) کے ذریعے نجی شعبے کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ پاکستان نے صنعت، ٹیکنالوجی، زراعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے دو ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔ روس نے کراچی میں سٹیل مل کے قیام کے لیے 2.6 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جبکہ حکومت کے مطابق ’ڈیڑھ لاکھ تربیت یافتہ پاکستانی مزدوروں کو نئے لیبر ایکسپورٹ معاہدے کے تحت بیلاروس میں بھیجا جائے گا آذربائیجان نے 40 پاکستانی جے ایف-17 طیاروں کی خریداری کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور کل 4.6 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے طے پائے ہیں اسی دوران ایران کے ساتھ تجارت کے حجم میں اضافے کی امید ہے، جو تین سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر تک جا سکتا ہےموجودہ حکومت کی کامیابیوں میں کویت کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے ویزا اور سفری پابندیاں ختم کرنا، پانچ سالہ ملٹی انٹری ویزے کی اجازت دینا اور 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ شامل ہے۔قطر نے نئی اقتصادی شراکت داری کے تحت تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے جبکہ ترکی کے ساتھ پانچ ارب ڈالر کے تجارتی ہدف کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسدادِ دہشت گردی کے وائس چیئرمین کے طور پر منتخب ہونا بھی ایک اہم سفارتی سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ متعدد عالمی طاقتیں پاکستان کے ساتھ توانائی، دفاع، مصنوعی ذہانت ، لیبر اور فِن ٹیک کے شعبوں میں مشترکہ منصوبوں پر غور کر رہی ہیں۔ آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے 17 ہزار 500 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ منگل کو پیش کیا جائے گا۔ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کے لیے 1,000 ارب روپے اور بجلی و دیگر شعبوں کو سبسڈی کی مد میں 1,400 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں 1000 ارب کے ترقیاتی پروگرام میں سے بلوچستان کا حصہ 250 ارب روپے ہو گا کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبوں اور وفاقی حکومت کے لیے وفاق سے چلنے والا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) مجموعی طور پر ایک ٹریلین روپے کا ہو گا اور بلوچستان کو 250 ارب روپے ملیں گے، جو کل پی ایس ڈی پی کا 25 فیصد ہے۔
پلاننگ کمیشن کے مطابق مالی سال 2025-26 کے لیے مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 3800 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، جس میں سے 2800 ارب روپے صوبوں اور 1000 ارب روپے وفاق کے لیے مختص ہوں گے۔بجٹ میں تین بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں دفاعی بجٹ میں اضافہ، جو 2122 ارب سے بڑھ کر 2500 ارب ہو سکتا ہے ترقیاتی بجٹ میں کمی اور سود کی ادائیگی میں کمی، جو گذشتہ برس 10 ہزار ارب تھی اور اب 8700 ارب رہنے کا امکان ہے,
دوسری طرف ہر شہری کاسوال یہ ہے کہ کیا وفاق کا بجٹ عوام دوست بجٹ ہوگا؟ تا ہم اب تک کی تجاویز کے مطابق وفاقی بجٹ میں بعض شعبوں کو ریلیف جبکہ کئی منصوبوں میں کٹوتی کا امکان ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی کے تناسب سے ریلیف دیا جائے گا،اس بار تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملنے کا امکان ہے کیونکہ پچھلے بجٹ میں اس طبقے پر خاصا بوجھ ڈالا گیا تھا۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کیلئے تیار کردہ تجاویز میں پہلی تجویز یہ دی گئی ہے کہ گریڈ ایک سے سولہ تک ملازمین کیلئے 30 فیصد ڈسپیرٹی الاوٴنس دیا جائے اور گریڈ 17 سے 22 تک 15 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ مہنگائی کے تناسب سے بجٹ میں تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے جبکہ تیسری تجویز یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والے ایڈہاک ریلیف میں سے ایک یا دو ریلیف تنخواہ میں ضم میں کرکے نئے پے اسکیل جاری کیے جائیں مالی سال 2022ء میں ملازمین کو دیا گیا ایڈہاک الاؤنس بنیادی تنخواہ میں ضم کرکے دس فیصد اضافے کی تجویز ہے آرمڈ فورسز کو کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم سے مستثنیٰ رکھنے کی بھی تجویز ہے۔ حکومت کو اتحادیوں نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا مشورہ دیا ہے، وفاقی حکومت ملازمین کوتنخواہوں میں تفریق ختم کرنے کی یقین دہانی کراچکی ہے اور اس حوالے سے ملازمین کے ساتھ زبانی اور تحریری معاہدہ بھی کیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اب ملازمین حکومت سے اپنا کیا گیا معاہدہ پورا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سرکاری ملازمین نے تنخواہوں اور کم ازکم اجرت میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے گذشتہ برس کا بجٹ ایک بحران کا بجٹ تھا، جبکہ اس مرتبہ بحران کی شدت کم ہے آئی ایم ایف نے 14,300 ارب روپے ٹیکس کا ہدف تجویز کیا ہے، جس میں نان فائلرز کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں گے، جبکہ زرعی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر پانچ سالہ لیوی عائد کرنے کی تجویز شامل ہے جبکہ نان فائلرز کے خلاف کارروائی سخت کرنے کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ اسی طرح، لیپ ٹاپ اور سمارٹ فونز کی بیٹری اور چارجرز کی مقامی تیاری کے لیے ٹیکس مراعات دی جا سکتی ہیں۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کے لیے اقدامات زیر غور ہیں، جن میں پیٹرول پمپس سے نقد ادائیگی پر فی لیٹر دو سے تین روپے اضافی قیمت، اور مینوفیکچررز و درآمد کنندگان کی نقد فروخت پر دو فیصد اضافی ٹیکس شامل ہیں۔ اس کے برعکس کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر سہولت دی جائے گی۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’1500 ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ متوقع تھا، جو کم کر کے 1000 ارب کر دیا گیا ہے۔پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد مصطفی سید نے وفاقی بجٹ میں آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ریلیف پیکیج کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے۔ فکسڈ ٹیکس رجیم 2025 سے 2035 تک کا واضح اعلان رجسٹرڈ کمپنیوں پر 0.25 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس برقرار رکھا جائےآئی ٹی ملازمین اور ریموٹ ورکرز پر یکساں انکم ٹیکس لاگو کیا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر پالیسیوں میں تسلسل نہ رہا تو غیر ملکی سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔

مزید خبریں