اسلام آباد (شہزاد انور ملک) — پاکستان میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات نے معاشرتی اقدار، قومی شعور اور نوجوان نسل کے طرزِ فکر کو جس حد تک متاثر کیا ہے، وہ کسی سانحے سے کم نہیں۔ ایک وقت تھا جب اس قوم کے ہیرو وہ لوگ تھے جنہوں نے علم، تحقیق، قربانی اور قیادت کے میدان میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ آج قوم کے سامنے جو چہرے بطور “ہیرو” پیش کیے جا رہے ہیں، وہ نہ کسی سائنسی کارنامے کے حامل ہیں، نہ کسی تعلیمی خدمت کے، نہ ہی کوئی قومی یا دینی خدمت ان کے دامن میں ہے۔ ان کی واحد پہچان ایک وائرل ویڈیو، بے ہودہ جملہ، یا کسی متنازع حرکت پر مبنی کلپ ہے۔
ریجٹ بٹ، دنانیر، چاہت فتح علی خان، لاہور دا پاوا اختر لاوا جیسے افراد نے صرف ایک لمحاتی مزاح یا غیر سنجیدہ مواد کی بدولت وہ مقام حاصل کر لیا ہے جس کے لیے ہمارے حقیقی محسنوں نے زندگیاں وقف کیں۔ ان شخصیات کا نہ تو کوئی تعلیمی پس منظر ہے، نہ کوئی قابلِ ذکر خدمت، اور نہ ہی ان کے کردار میں وہ سنجیدگی یا وقار ہے جو کسی قومی نمائندہ یا ہیرو میں ہونا چاہیے۔ مگر میڈیا پر ان کی حاضری اور سوشل میڈیا پر ان کی مقبولیت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کہیں ہم نے اپنے قومی نظریے کو محض تفریح، وائرل کلپس اور وقتی واہ واہ کی نذر تو نہیں کر دیا؟
قائداعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، محترمہ فاطمہ جناح اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگوں نے اس ملک کی بنیاد رکھنے، اسے سنوارنے، اور دنیا کے نقشے پر باوقار مقام دلانے کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ مگر آج کے میڈیا اور عوامی مزاج کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم ان سب کو بھول کر نئے “ہیروز” کی تلاش میں نکل چکے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جو اپنی بنیادوں، اپنی تاریخ اور اپنے اصل رہنماؤں کو فراموش کر دے، وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔
محترمہ فاطمہ جناح، جو مادر ملت کہلائیں، ان کو اپنی ہی قوم نے غدار قرار دے دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، اپنے آخری ایام میں نظر بندی کی حالت میں گزارے۔ ایماندار افسران اور محبِ وطن دانشور یا تو قتل کر دیے گئے یا جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ آج ملک میں تین سو سے زائد یونیورسٹیاں جعلی اسناد جاری کر رہی ہیں، تعلیمی معیار بدترین ہو چکا ہے، اور نوجوان نسل محض ڈگریوں کی فیکٹریوں سے گزر کر زندگی کے کسی بھی میدان میں با مقصد کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے نہ صرف نوجوانوں کی توجہ تعلیم سے ہٹا دی بلکہ اخلاقی انحطاط کو بھی فروغ دیا۔ مختصر ویڈیوز میں بے ہودگی، فحاشی اور سطحی پن کو اس طرح پروان چڑھایا جا رہا ہے جیسے یہی معاشرتی کامیابی کا معیار ہو۔ نیشنل ٹی وی چینلز بھی اس رجحان کو فروغ دے رہے ہیں۔ ٹاک شوز میں، پرائم ٹائم میں، ایسے افراد کو بلایا جاتا ہے جن کی گفتگو میں علم نہیں، ادب نہیں، فکر نہیں، بس ایک وقتی ہنسی اور غیر سنجیدہ مواد ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ممتاز اینکرز اور صحافی ان موضوعات پر گفتگو سے گریز کرتے ہیں، جیسے یہ معاشرے کا مسئلہ ہی نہ ہو۔
قوموں کا عروج و زوال ہمیشہ ان کے ہیروز کے انتخاب سے جڑا ہوتا ہے۔ جب کسی قوم کے ہیرو بدل جائیں، جب قربانی اور خدمت کی جگہ شہرت اور وائرل کلپس کو اہمیت ملنے لگے، جب علم و ادب کی جگہ فیشن اور تفریح کو فوقیت حاصل ہو جائے، تو وہ قوم خود بخود زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اسی راستے پر گامزن ہے۔ آج ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور کہاں جانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم محض سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کو فالو کر کے ایک باوقار قوم بن سکتے ہیں؟ کیا ہم ان لوگوں کو ہیرو مان کر اپنی نسلوں کو علم، اخلاق، ایمان اور حب الوطنی کی دولت سکھا سکتے ہیں؟ بالکل نہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا اپنی تہذیب و ثقافت کو ٹک ٹاک پر اجاگر کرنے کا فیصلہ
یہ وقت ہے کہ ہم خود احتسابی کریں، اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں، اور ایسے اقدامات کریں جو قوم کی سمت درست کریں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سکھانا ہوگا کہ اصل کامیابی محنت، علم، دیانت اور قربانی میں ہے نہ کہ شہرت، وائرل کلپس یا چند لائکس میں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم پر رحم فرمائے اور ہمیں دوبارہ ان راستوں کی طرف لوٹنے کی توفیق دے جن پر چل کر ہمارے اسلاف نے اس ملک کو بنایا اور سنوارا تھا۔ آمین۔