اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں نوجوان نسل پر ٹک ٹاک کے اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اس مقبول ایپ نے نہ صرف تفریح کے مواقع فراہم کیے ہیں بلکہ نوجوانوں کے اخلاقی اقدار، سماجی رویوں اور اسلامی تعلیمات پر گہرا اثر بھی ڈالا ہے۔ معاشرتی سطح پر اخلاقی اقدار میں زوال، اسلامی تعلیمات سے دوری اور معاشرتی فرق و تمیز کا خاتمہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کس سمت جا رہی ہے۔
ٹک ٹاک کا اخلاقی اثر
ٹک ٹاک کی مقبولیت نے نوجوانوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب وہ اس پر وقت گزارتے ہیں، ان کی تفریح کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ٹک ٹاک پر بنائی جانے والی ویڈیوز میں غیر اخلاقی مواد، فحش حرکات، اور بے ہودہ رویے بھی بڑھ گئے ہیں، جو کہ نوجوانوں میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی عزت اور وقار کو نظرانداز کر کے محض لائکس، فالوورز اور گفٹس کے لیے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور سنت کی خلاف ورزی
پہلے وہ لوگ جو اسلامی معاشرتی اصلاحات کے علمبردار تھے اور جو اخلاقی قدروں کے محافظ تھے، وہی اب ٹک ٹاک پر اپنی تعلیمات کا پرچار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا ان کا مقصد لوگوں کو صحیح دینی تعلیم دینا ہے یا صرف لائکس اور ویوز کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا؟ خاص طور پر مولوی صاحبان جو اپنی لائیو ویڈیوز میں قرآن کا درس دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ایک تضاد پیدا ہو رہا ہے۔ ایک طرف وہ قرآن و سنت کی تعلیمات دیتے ہیں، دوسری طرف وہ خود اس پلیٹ فارم پر اپنی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جو کہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔
یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے کیونکہ مولوی صاحبان کی ہدایت اور تعلیمات کا اثر عوام پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خود سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارمز پر وقت گزار رہے ہیں تو نوجوانوں کے لیے یہ پیغام جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ جائز ہے اور کسی بھی طرح کا عمل اخلاقی یا دینی لحاظ سے غلط نہیں ہے۔
نوجوانوں کا اخلاقی زوال اور سماجی اثرات
ٹک ٹاک پر نوجوانوں کی جانب سے بناوٹی ویڈیوز بنانا اور خود کو مشہور کرنے کی دوڑ میں شامل ہونا ان کی اخلاقی تربیت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ نرسیں اور پولیس اہلکار دوران ڈیوٹی بھی ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہیں، جو کہ نہ صرف ان کی ذاتی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ بے راہ روی ان کی فلاح اور بہتری کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
حکومت اور مذہبی اداروں کی خاموشی بھی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ ارباب اختیار کی عدم توجہی اور بے حسی اس بات کا غماز ہے کہ وہ اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ اگر اس پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو اس کا اثر ہماری آئندہ نسلوں پر پڑے گا۔
پردے اور سنت رسول کی اہمیت
پاکستان میں پردے کی اہمیت اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا فقدان بھی اس مسئلے کا ایک بڑا پہلو ہے۔ ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نوجوانوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ اسلامی معاشرتی اقدار، پردے اور خاندان کی عزت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی شہرت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔
حکومت اور مذہبی اداروں کی ذمہ داری
پاکستان کی حکومت اور وزارت مذہبی امور کو اس مسئلے پر فوری طور پر سخت پالیسی بنانی چاہیے۔ ان پلیٹ فارمز کی نگرانی کی جانی چاہیے اور نوجوانوں کی تربیت کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں کہ وہ اپنے اخلاقی اور مذہبی اصولوں پر قائم رہیں۔ مزید برآں، ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد کو روکا جانا چاہیے اور والدین کو اپنے بچوں کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔
مزید پڑھیں: نعت خواں اسلم سعیدی کی ٹک ٹاک پر نعت خوانی، شرعی تشویش کا اظہار
معاشرتی انحطاط کی وجوہات:
-
فالورز اور لائکس کا جنون: نوجوانوں میں فالورز اور لائکس کی بڑھتی ہوئی خواہش نے انہیں اپنی عزت نفس اور اخلاقی حدود سے بے پرواہ بنا دیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی ذاتی حدود کو عبور کرتے ہیں۔
-
مذہبی رہنماؤں کا تضاد: اگر مولوی صاحبان خود ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر موجود ہیں، تو یہ نوجوانوں کے لیے ایک گمراہ کن پیغام بنتا ہے۔ دین اسلام میں تو یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انسان کو اپنی ذاتی عزت، پردہ اور اخلاقی حدود کا خیال رکھنا چاہیے، مگر سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیاں اس کے برعکس ہیں۔
-
حکومتی خاموشی: حکومت نے اس مسئلے پر کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی ہے۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی موثر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
نتیجہ
پاکستان کی موجودہ صورتحال ہمیں ایک سنگین خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں ہماری نوجوان نسل اپنی اخلاقی اقدار اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو رہی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا، تو نہ صرف ہماری نسلیں متاثر ہوں گی بلکہ پورا معاشرہ اخلاقی اور سماجی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ حکومت، مذہبی ادارے اور والدین کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے فوری طور پر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی، تاکہ نوجوان نسل کو محفوظ اور تعلیمی طور پر مضبوط راستے پر گامزن کیا جا سکے۔