پی آئی اے کی حالت زار، برطانیہ میں پابندی برقرار: ناکامی، چیلنجز اور پاکستانیوں کا ردعمل

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) ایک طویل عرصے سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اگرچہ قومی ایئرلائن کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر پی آئی اے میں بہتری کی صورت نظر نہیں آ رہی۔ حالیہ واقعات اور عالمی سطح پر اس کی شہرت نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ پی آئی اے کی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

برطانیہ میں پی آئی اے پر پابندی کا برقرار رہنا

برطانیہ میں پاکستانی ایئرلائنز بشمول پی آئی اے پر پابندی کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ برطانوی وزارت ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایئرلائنز کو ایئر سیفٹی لسٹ میں رکھا جائے گا اور ان پر پابندی ہٹانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔ جولائی 2020 میں برطانیہ اور یورپ نے پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنس اسکینڈل کی وجہ سے پاکستانی ایئرلائنز کی پروازوں پر پابندی لگائی تھی۔ یہ اسکینڈل نہ صرف پی آئی اے کی ساکھ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس کی کارکردگی اور سلامتی پر سوالات اٹھ گئے تھے۔

پی آئی اے کے طیارے کا ٹائر گم ہونا اور عوامی تنقید

حال ہی میں پی آئی اے کی فلائٹ 306 کا ایک ٹائر گم ہو گیا تھا، جس پر عوام کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب پی آئی اے کا طیارہ کراچی سے لاہور پہنچا، اور ایئرپورٹ پر معائنے کے دوران ایک ٹائر کی عدم موجودگی کا انکشاف ہوا۔ سول ایوی ایشن نے تحقیقات کا آغاز کیا اور ابتدائی طور پر یہ کہا کہ جہاز نے لاہور ایئرپورٹ پر انتہائی ہموار لینڈنگ کی، تاہم یہ واقعہ عوامی سطح پر سوالات کا موجب بنا اور لوگوں نے پی آئی اے کی کمزور کارکردگی پر کڑی تنقید کی۔

پی آئی اے کی نجکاری اور قومی خزانے پر بوجھ

پی آئی اے کی مالی مشکلات اور کارکردگی کی کمیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں اس بات کی منظوری دی گئی کہ پی آئی اے کے 51 سے 100 فیصد شیئرز فروخت کیے جائیں گے تاکہ قومی خزانے پر اس کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ اس فیصلے کا مقصد پی آئی اے کی مکمل صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور اس کے انتظامی کنٹرول کو بہتر بنانا ہے۔ تاہم، اس فیصلے کے بعد بھی عوام میں سوالات اٹھتے ہیں کہ کیا نجکاری کے بعد پی آئی اے کی حالت میں کوئی بہتری آئے گی یا یہ محض ایک وقتی حل ہوگا؟

پی آئی اے پر پاکستانیوں کا ردعمل

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر کیوں پاکستانی عوام اپنے ہی ملک کی قومی ایئرلائن کی حمایت نہیں کرتے؟ پی آئی اے کا شمار دنیا کی قدیم ترین ایئرلائنز میں ہوتا ہے، لیکن اس کی حالت میں مسلسل بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی سروسز اور معیار میں واضح کمی آئی ہے اور اس کے طیاروں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں پی آئی اے پر پابندیاں، طیارے کی خرابی اور عدم معیار، ان سب نے اس کی ساکھ کو مزید متاثر کیا ہے۔

مستقبل کے بارے میں سوچنے کی ضرورت

پاکستانی قوم کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ہمیشہ اس طرح کی ناکامی کا سامنا کرتے رہیں گے یا ہمیں مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا؟ پی آئی اے کی حالت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر ہم نے اپنے قومی اداروں کو بہتر بنانے کی طرف حقیقی معنوں میں توجہ نہ دی، تو ہمیں مزید مشکلات کا سامنا ہوگا۔ حکومت اور عوام دونوں کو مل کر اس ادارے کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ پی آئی اے دوبارہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنا سکے اور قومی خزانے پر بوجھ کم ہو۔

نتیجہ

پی آئی اے کی موجودہ حالت اور اس پر ہونے والی تنقید اس بات کا غماز ہیں کہ ہمیں اپنے قومی اداروں کی بہتری کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس ادارے کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے منصوبہ بندی کریں، تاکہ نہ صرف پی آئی اے کی ساکھ بحال ہو، بلکہ پاکستانیوں کا اپنے ہی قومی اداروں پر اعتماد بھی بحال ہو سکے۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا کینیڈا اور پیرس سے کرایوں میں کمی کا اعلان

مزید خبریں