اسلام آباد(شہزاد انور ملک) پاکستان میں “خوارج” کا تصور زیادہ تر انتہا پسند گروہوں کے تناظر میں استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خوارج ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان ہونے والے ثالثی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے علیؓ کی خلافت کے خلاف ہوگئے تھے۔ بعد میں، یہ گروہ شدت پسندی اور تکفیری نظریات کے حامل بن گئے۔ آج کے دور میں، پاکستان میں مختلف دہشت گرد تنظیموں اور انتہا پسند گروہوں کو خوارج کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے جو ریاست اور عوام کے خلاف مسلح بغاوت میں ملوث ہیں۔
پاکستان میں خوارج کے نظریات اور ان کی پہچان
پاکستان میں خوارج کی جدید شکل وہ گروہ ہیں جو:
-
ریاستی قوانین اور آئین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔
-
حکومت اور سیکورٹی فورسز کو کافر یا مرتد کہہ کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہیں۔
-
عوامی مقامات، عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں، اور بازاروں میں دہشت گردی کرتے ہیں۔
-
اپنے نظریات کو بزورِ شمشیر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
-
اعتدال پسند علماء، سیاستدانوں اور مخالف نظریات کے حامل افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔
پاکستان میں خوارج کی موجودگی اور سرگرمیاں
پاکستان میں مختلف دہشت گرد گروہوں کو خوارج سے تشبیہ دی جاتی ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
-
ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبان پاکستان)
-
پاکستانی فوج، پولیس، اور عوام پر حملے کرتی ہے۔
-
ریاستی نظام کو غیر اسلامی قرار دے کر اپنے نظریات کو مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
-
-
داعش (ISIS – خراسان گروپ)
-
پاکستان میں خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں میں ملوث ہے۔
-
سیکیورٹی فورسز اور شیعہ برادری کو خاص طور پر نشانہ بناتی ہے۔
-
-
بلوچ علیحدگی پسند مسلح گروہ
-
ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت میں ملوث گروہ، جن میں بعض شدت پسند نظریات رکھتے ہیں۔
-
ریاستی اداروں کا ردعمل
پاکستانی ریاست نے ان گروہوں کے خلاف کئی آپریشنز کیے، جن میں:
-
آپریشن راہِ نجات (2009) – جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف۔
-
آپریشن ضربِ عضب (2014) – شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف۔
-
آپریشن ردالفساد (2017-تاحال) – پورے ملک میں انتہا پسندوں کے خلاف۔
ان آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک کافی حد تک کمزور ہوا، لیکن یہ عناصر اب بھی خفیہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علمائے کرام کا مؤقف
پاکستان کے کئی نامور علمائے کرام، بشمول مولانا طارق جمیل، مفتی منیب الرحمان، مولانا فضل الرحمن، مفتی طارق مسعود اور دیگر نے ان گروہوں کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ 2019 میں “پیغامِ پاکستان” نامی فتویٰ جاری ہوا، جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ:
-
پاکستان کی ریاست کے خلاف مسلح بغاوت حرام ہے۔
-
خودکش حملے اسلام میں جائز نہیں۔
-
کفر کے فتوے لگانا صرف مستند علماء کا کام ہے، عام افراد کا نہیں۔
نتائج اور سفارشات
-
ریاستی اقدامات: سیکیورٹی فورسز کو مزید مضبوط بنا کر ان گروہوں کی جڑیں مکمل طور پر ختم کی جائیں۔
-
تعلیمی اصلاحات: دینی مدارس میں ایسا نصاب متعارف کرایا جائے جو انتہا پسندی کے خلاف ہو۔
-
میڈیا اور عوامی شعور: میڈیا اور تعلیمی ادارے عوام کو ان نظریات سے متعلق آگاہ کریں۔
-
بین الاقوامی تعاون: دیگر ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکا جائے۔
نتیجہ
پاکستان میں خوارج کے نظریات پر مبنی شدت پسند گروہ ریاست، عوام، اور اسلام کے حقیقی تشخص کے لیے خطرہ ہیں۔ تاہم، اگر ریاست، علمائے کرام، اور عوام مل کر کام کریں، تو ان کا خاتمہ ممکن ہے۔ اگر حکومت اور عوام نے ان گروپوں کے نظریات کے مقابلے میں متحد ہو کر عمل کیا تو پاکستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔