اسلام آباد (شہزاد انور ملک) تحریک طالبان پاکستان نے پشاور میں معروف عالم دین مفتی منیر شاکر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے اور ساتھ ہی مزید حملوں کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔ یہ واقعہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف جاری بغاوت اور جنگ کے اعلان کے بعد پیش آیا ہے، جس نے اس بار اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کردی ہے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان بھر میں کل 13 حملے ہوچکے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کا نشانہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ بن رہا ہے، جہاں انہیں کارروائیاں کرنے میں سہولت مل رہی ہے۔ ان حملوں میں شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔
پاکستانی حکومت اس صورتحال کو انتہائی سنجیدہ سمجھتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے جارہی ہے، جس میں ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر پر غور کیا جائے گا۔ حالیہ دہشت گردانہ کارروائیاں، خاص طور پر رمضان المبارک کے دوران، پاکستانی عوام میں شدید تشویش اور غم و غصے کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں مسلم مخالف قوتیں اپنے ہی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، حالانکہ اسلام امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ دہشت گردوں کی یہ کارروائیاں نہ صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب عمران خان کی حکومت تھی تو ایسی دہشت گردی کی کارروائیاں کم ہوچکی تھیں، لیکن اب ان حملوں میں تیزی آئی ہے، جس کے بعد حکومت اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید شدت لانے پر غور کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو ہر صورت میں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور پاکستان کی سرزمین پر امن قائم رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: پشاور: مسجد کے باہر دھماکے میں جاں بحق مفتی منیر شاکر کی نماز جنازہ ادا کردی گئی
پاکستانی عوام اور سیکیورٹی ادارے اس وقت ایک سنگین صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اور حکومت نے دہشت گردی کی اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔