اتوار,  16 مارچ 2025ء
رمضان میں ٹک ٹاک کی سرگرمیاں: فحاشی اور بے ہودگی کے اثرات، معاشرتی اقدار کا چیلنج

اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) رمضان کے مہینے میں جب مسلمان عبادت اور روحانیت میں مشغول ہوتے ہیں، اس دوران ٹک ٹاک پر سرگرمیاں ایک نیا اور متنازعہ پہلو اختیار کر گئی ہیں۔ ٹک ٹاک پر افطاری کے وقت لائیو آ کر مسلمان اپنی سرگرمیاں دکھا رہے ہیں، جو کہ نیک عمل کے بجائے زیادہ تر فحاشی اور بے ہودگی کی طرف مائل ہیں۔ یہ تبدیلیاں ہمارے مسلمان معاشرے میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں جو کبھی ہمارے اخلاقی معیار کے مطابق نہیں تھیں۔ ٹک ٹاک پر پیسوں کی لالچ میں لوگ ایک دوسرے کے نخرے برداشت کر رہے ہیں تاکہ ان کے ویورز انہیں گفٹنگ کریں۔

یہ صورت حال اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ اس پلیٹ فارم پر ہونے والی بے ہودہ گفتگو اور میچز کے دوران سامنے آنے والے غلیظ فنشمنٹس نے ہماری تہذیب کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ سب کچھ اتنی شدت اختیار کر چکا ہے کہ جب ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے معاشرتی اور مذہبی اقدار سے بہت دور جا چکے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اس ایپ پر پابندی لگائی ہے اور اس فیصلے کی ایک مضبوط وجہ ہے۔ اگر ہمارے ہمسایہ ملک نے اس ایپ پر پابندی لگائی تو کیا ہمیں اس حقیقت پر غور نہیں کرنا چاہیے؟

امریکہ نے بھی اسی طریقے سے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی اور اس ایپ کو صرف دو ماہ کی مشروط اجازت کے ساتھ دوبارہ چلانے کی اجازت دی۔ اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دنیا بھر میں اس ایپ کے استعمال کے اثرات پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس کا استعمال جہاں ایک طرف تفریح کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

ٹک ٹاک کیا واقعی مسلمانوں کی تباہی کے لیے بنائی گئی؟ سوشل میڈیا صارف نے لکھا ہے کہ جب میں نے اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا تو میرے کمنٹس میں کمیونٹی وائلیشن آ گئی، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاک ایک خاص پالیسی کے تحت چل رہا ہے۔

پاکستان میں ٹک ٹاک لائیو کے دوران فحاشی اور بے ہودہ سرگرمیاں عروج پر ہیں، جو ہماری اخلاقی اور دینی اقدار کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ان ویڈیوز میں خاص طور پر بچے بھی شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ ایک منظر میں بچہ اپنی والدہ کے ساتھ دل کا نشان بنا رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کو ایسے ماحول میں تربیت دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ یہی بچے کل ہمارے معاشرتی کاموں میں حصہ ڈالیں؟

مزید پڑھیں: اسلام آبادکی مثالی پولیس کے اہلکار ٹک ٹاک بنانے لگے، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل

یہ سوالات ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار کو چیلنج کر رہے ہیں اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کی طرف سے ٹک ٹاک لائیو پر ہونے والی فحاشی اور بے ہودہ گفتگو پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جا رہا؟ کیا یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم اس ایپ کے منفی اثرات کو روکنے کے لیے اقدامات کریں؟

پاکستان میں اس وقت بچوں، نوجوانوں اور بالغوں میں ٹک ٹاک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اس کا اثر ہمارے معاشرتی اخلاقیات پر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہمیں اپنی مذہبی اور اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اس ایپ کا استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس پر سوچنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے معاشرے کو اس بحران سے بچا سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر تربیت دے سکیں۔

مزید خبریں