اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز)– رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان میں ایک نئی نسل کے “زکوۃ خور” نظر آنے لگے ہیں، جو پورے سال غائب رہنے کے بعد اس مقدس مہینے میں اچانک منظر عام پر آجاتے ہیں۔ ان افراد کو عام طور پر “زکوۃ خور” کہا جاتا ہے، جو اس مہینے میں سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور سڑکوں پر بڑے بڑے بینرز کے ذریعے لوگوں سے زکوۃ کی اپیل کرتے ہیں۔
یہ افراد اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ پیسہ حقیقی ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے تو کیا ان کی مدد کی ضرورت نہ پڑے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اب زکوۃ کے نام پر ایک نیا کاروبار بن چکا ہے، جس میں لوگ پیسہ لگا کر تین یا چار گنا کماتے ہیں، اور ہم اپنا تھوڑا بہت پیسہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ اس کا اثر کہاں جا رہا ہے۔
ایک طرف تو یہ لوگ رمضان کے دوران لاکھوں لوگوں کی مدد کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف غریبی میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر لاکھوں افراد کی مدد کی جا رہی ہے تو غریبی میں کمی کیوں نہیں آ رہی؟ اس کے بجائے، اب پورے خاندان ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں زکوۃ کے لئے، کیا یہ مہنگائی کی وجہ سے ہو رہا ہے؟ نہیں، مہنگائی کی رفتار اتنی تیز نہیں ہے جتنی تیزی سے لوگوں کے ضمیر مر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: مفتی طارق مسعود کا زکوۃ کی صحیح تقسیم پر اہم بیان
یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ اس تمام صورتحال میں سب سے بڑا کردار تنظیموں کا ہے، جنہوں نے لوگوں کے ضمیر کو مٹا دیا ہے، اور اب معاشرتی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ہمیں معاشرتی اور اخلاقی طور پر کمزور کر رہے ہیں۔
یاد رکھنا ضروری ہے کہ رمضان کا مقصد صرف عبادت نہیں بلکہ دوسروں کی مدد اور انسانیت کی خدمت بھی ہے، اور ہمیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے صحیح طریقے سے پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبی اور غربت میں کمی آئے اور معاشرہ بہتر ہو سکے۔