تحریر: وقار نسیم وامقٓ
ایک وقت تھا جب بھارتی کرکٹ ٹیم شارجہ کے میدان میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے میچ کھیلتے ہوئے کتراتی تھی، پاکستان اور ہندوستان کے میدانوں میں پاک بھارت میچ ہو جاتا تھا، تاریخ میں درج ہے کہ بھارت نے شارجہ میں پاکستان سے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔
آج تاریخ بدل چکی ہے لیکن بھارت کی روش ویسی ہی ہے، اب بھارت پاکستان میں کھیلنے سے انکاری ہے لیکن دبئی کے کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان سے کرکٹ کھیلنے میں اسے کوئی عار نہیں ہے۔
یہ صورتحال افسوسناک ہے، بھارت کا پاکستان میں کھیلنے سے انکار امن سے انکار کی علامت ہے، کیونکہ کھیل کا میدان، ممالک کے درمیان امن اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے اور یہ رویہ سپورٹس میں شپ کے بھی عین منافی ہے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عالمی دہشت گردوں سے نبرد آزما رہا ہے، خاص طور پر لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردانہ حملہ کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ کا خاتمہ اور پھر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیوں اور امن اور کرکٹ کی بحالی کے بعد چیمپیئنز ٹرافی میں کرکٹ کھیلنے والے تمام بڑے ممالک کی ٹیموں کا پاکستان آکر کھیلنا اور فقط بھارت کا انکار اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے، امن کے قیام اور کرکٹ کی بحالی سے خوش نہیں۔
بھارت نے ثابت کیا کہ وہ ایک ہٹ دھرم اور غاصب ملک ہے چاہے معاملہ کشمیر کا ہو یا کرکٹ کا بھارت کو اپنی ہٹ دھرمی سے غرض ہے اور بھارت کو امن میں بھی کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں بلکہ پاکستان میں پرامن صورتحال اور کرکٹ کی بحالی سے مایوسی کا شکار ہے۔ بھارت کو یہ پالیسی بدلنی چاہیئے۔
آئی سی سی میں بھارتی اثر و رسوخ عالمی کرکٹ کے لئے بھی ایک چیلنج ہے جہاں دیگر رکن ممالک کو اس بارے میں نیا لائحۂ عمل ترتیب دینا ہوگا تاکہ دنیا کو دبئی کے فائنل کا منظر دوبارہ نا دیکھنا پڑے جہاں سٹیڈیم میں صرف بھارتی تماشائی تھے اور خود بھارتی نژاد آئی سی سی نمائندہ بھارتی ٹیم کو ٹرافی سے نواز رہا تھا اگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرتا اور یہ فائنل لاہور میں کھیلتا تو یقیناً میزبان ملک محبت سے یہ ٹرافی ان کے حوالے کرتا اور دنیا کو امن کا بہترین پیغام جاتا جو اس بات پر مہر ثبت کرتا کہ کھیل کےمیدان امن اور دوستی کی بہترین علامت ہوتے ہیں۔
پاکستان مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے چیمپیئنز ٹرافی جیسا بڑا ایونٹ کامیابی سے منعقد کروایا، کھیل کے میدان آباد ہوئے، پاکستانی شائقینِ کرکٹ گو اپنی ٹیم کی پرفارمنس سے ناخوش ہیں لیکن پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی سے مطمئن ہیں۔