اسلام آباد (روشن پاکستان نیوز) سوشل میڈیا کا استعمال آج کل زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی خواتین کی شرم و حیا پر منفی اثرات بھی واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ٹویٹر نے جہاں دنیا بھر میں رابطے کے نئے دروازے کھولے ہیں، وہیں اس نے خواتین کی ذاتی زندگی پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر خواتین کے بارے میں مروجہ غیر مناسب مواد اور تشہیر سے ان کی شرم و حیا متاثر ہو رہی ہے۔ کئی دفعہ ایسی پوسٹس، تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی جاتی ہیں جو خواتین کی عزت اور وقار کو مجروح کرتی ہیں۔ اس سے خواتین کی خود اعتمادی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی بے ہودہ تصاویر اور ویڈیوز خواتین کی عزت اور معاشرتی کردار کو متاثر کرتی ہیں۔ جب نوجوان لڑکیاں اور خواتین ایسی مواد کو دیکھتی ہیں، تو ان پر دباؤ آتا ہے کہ وہ بھی اس طرح کی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کریں، جس سے ان کی ذاتی زندگی اور شرم و حیا پر اثر پڑتا ہے۔
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر خواتین کے لیے زیادہ تحفظ اور مناسب مواد کی ضرورت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو خواتین کو سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے آگاہ کرنا چاہیے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس پلیٹ فارم کو صحت مند اور محفوظ طریقے سے استعمال کر سکیں۔
اسی طرح، کئی خواتین نے خود کو سوشل میڈیا کے اثرات سے بچانے کے لیے اپنی آن لائن پرائیویسی اور سیکیورٹی پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو خواتین کی حفاظت کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے چاہییں تاکہ خواتین کی عزت اور شرم و حیا کا تحفظ کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں: لاہور: ٹریفک وارڈن کی قانون شکنی، سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل
پاکستان کے کئی تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا ہے جہاں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر قابو نہ پایا، تو یہ معاشرتی اخلاقیات اور خواتین کی عزت و وقار کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
خواتین کی شرم و حیا کو محفوظ رکھنے کے لیے حکومت، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور معاشرتی اداروں کو مل کر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ سوشل میڈیا کا استعمال خواتین کے لیے محفوظ اور فائدہ مند ثابت ہو سکے۔
مرد کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق میں افضل قرار دیا ہے، مگر کیا تمام مرد اس افضلیت کے مستحق ہیں؟ جب اللہ نے اپنے حکم میں فرمایا کہ مردوں کو چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے اور یہ حلال ہیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اس حکم کے مطابق چل رہا ہے؟ اس وقت ہمارے معاشرتی اور مذہبی مسائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور عمل کریں۔ علماء کرام اور حکومت کا کردار اس معاملے میں بہت اہمیت رکھتا ہے، مگر بدقسمتی سے دونوں کا کردار اکثر صفر نظر آتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور یہ نوجوان ہمارے معاشرتی اور دینی مسائل کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن ان کو صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔