پیر,  23 دسمبر 2024ء
پیپلز پارٹی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کردار پر تجزیاتی رپورٹ

اسلام آباد(روشن پاکستان نیوز) پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی سیاست عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کی جنگ بن کر رہ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی، جو ہمیشہ سے عوامی خدمت کے دعوے کرتی رہی ہے، آج اپنی سیاست میں داخلی انتشار اور مفاد پرستی کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پارٹی کے کارکن ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر کیک کاٹنے کے دوران آپس میں لڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ منظر صرف پیپلز پارٹی کی داخلی سیاست کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ پورے ملک کے سیاسی بحران کی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے۔

سیاسی انتشار اور قیادت کا بحران

پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی کیک پر لڑائی ایک واضح اشارہ ہے کہ یہ جماعت اندرونی طور پر کس قدر متنازعہ اور بے اتفاق ہو چکی ہے۔ اگر ایک کیک پر اتنی بڑی لڑائی ہو سکتی ہے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس جماعت کی قیادت ملک جیسے بڑے اور پیچیدہ مسائل کو کس طرح حل کر پائے گی؟ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کو جاری رکھنے کے دعوے کرنے والی یہ جماعت آج اپنے اندر کے اختلافات سے جوجھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کی لیکن عملی طور پر وہ عوام کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ ان کا “روٹی، کپڑا، مکان” کا نعرہ صرف سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بن گیا، جبکہ عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرنا ان کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔

ن لیگ کی حکومت اور سیاسی عدم استحکام

پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام کا ایک بڑا سبب مسلم لیگ نون (ن لیگ) کی حکومت بھی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ن لیگ کی حکومت نے ملک کی معیشت کو بحران کی جانب دھکیل دیا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن جیسے مسائل نے عوام کی زندگی کو سخت بنا دیا ہے۔ ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف متعدد کرپشن الزامات سامنے آئے، اور ان الزامات نے حکومت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود ن لیگ کی سیاسی چالاکیوں نے انہیں اقتدار میں رکھنے کی طاقت دی، جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا۔

پیپلز پارٹی اور افواہیں: حکومت کی تبدیلی؟

سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ن لیگ کو پہلے ڈھائی سال کی حکومت دی گئی تھی اور باقی ڈھائی سال پیپلز پارٹی کو ملیں گے۔ یہ افواہیں اگرچہ محض قیاس آرائیاں ہیں، مگر حقیقت میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے ملک کی سیاسی صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ماضی میں عوامی مفاد کے خلاف کئی فیصلے کیے ہیں جن کی قیمت عوام نے بھگتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو یہ نہ صرف ان کے داخلی بحرانوں کو جنم دے گا بلکہ ملک کے معاشی اور سیاسی استحکام کو بھی متاثر کرے گا۔

مزید پڑھیں: بلاول بھٹو حکومت کی دروغ گوئی اور دھوکے پر پھٹ پڑے

پیپلز پارٹی کا ماضی: دعوے اور حقیقت

پیپلز پارٹی کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ جماعت ہمیشہ سے عوامی خدمت کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہی ہے، لیکن حقیقت میں اس کے اقدامات عوام کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئے۔ 1970 میں “روٹی، کپڑا، مکان” کا نعرہ لگانے والی اس جماعت نے عملی طور پر عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا۔ اگر ہم پیپلز پارٹی کے گزشتہ 55 سالوں کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس جماعت نے کبھی بھی عوامی فلاح کے لیے کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں اپنائی۔ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا، اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہمیشہ سیاست کی۔

سیاسی جماعتوں کی حقیقت

پاکستان کی سیاسی جماعتیں، چاہے وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہو، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ہو، یا کوئی دیگر چھوٹی جماعتیں، ہمیشہ اپنے منشوروں کو نظرانداز کر کے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ ان جماعتوں کا مقصد عوام کی فلاح کے بجائے ذاتی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کی کارکردگی

پاکستان تحریک انصاف کو تین بار خیبر پختونخوا میں حکومت ملی، مگر وہاں پی ٹی آئی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے دوران کسی بھی اہم فلاحی کام کا آغاز نہیں کیا، اور ان کی حکومتی پالیسیوں کا اثر عوام پر کچھ خاص نہیں پڑا۔ پی ٹی آئی کی سیاست کا زیادہ تر حصہ دھرنوں اور احتجاجات تک محدود رہا، اور اس کے ذریعے وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے۔ عمران خان کو وفاقی حکومت بھی ملی، لیکن ان کی حکومت کی روش بھی یہی تھی: احتجاج، دھرنے، اور سیاسی بیانات۔ کیا عمران خان اور پی ٹی آئی ہی صحیح ہیں، اور باقی سب غلط؟

جمعیت علماء اسلام کی سیاست

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) اور مولانا فضل الرحمان کی سیاست ہمیشہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت چلتی رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو بھی حکومت ہو، اس کے ساتھ اتحاد کر لیتے ہیں۔ تاہم، عمران خان کی پہلی حکومت میں انہیں حکومت سے باہر رکھا گیا، اور موجودہ ن لیگ کی حکومت میں بھی یہی صورتحال رہی۔ 26ویں آئینی ترمیم میں مولانا نے حکومت کے ساتھ چلنے سے انکار کیا، مگر پھر وہ حکومت کے ساتھ مل گئے۔ مولانا کی سیاست ہمیشہ سے ان کے ذاتی مفادات کے ارد گرد گھومتی ہے، اور یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ وہ دراصل کس کے ساتھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا صرف اپنے مفاد کی سیاست کرتے ہیں۔

نتیجہ: سیاسی بحران اور عوامی مسائل

پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا ایک بڑا سبب ان سیاسی جماعتوں کا آپسی انتشار اور مفاد پرستی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی ایسی جماعتیں ہیں جو عوامی مسائل کے حل کے بجائے اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اگر ان جماعتوں کی موجودہ سیاست میں کوئی تبدیلی نہ آئی، تو پاکستان کا سیاسی بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ عوام کی حالت بدتر ہوتی جائے گی اور ملک کی معیشت کا استحکام مزید متزلزل ہوگا۔

یقینی طور پر، پاکستان کی سیاست میں حقیقی تبدیلی اور بہتری کے لیے ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے جو عوامی مفاد کو ترجیح دے، نہ کہ ذاتی مفاد کو۔

مزید خبریں